Breaking News
Home / Blog / Breaking Barriers and Inspiring a Generation: The Story of Muslim Paralympians Representing India at Paris 2024 رکاوٹیں توڑتے اور ایک نسل کو متاثر کرتے ہوئے: پیرس 2024 میں ہندوستان کی نمائندگی کرنے والے مسلمان پیرا اولمپین کی داستان

Breaking Barriers and Inspiring a Generation: The Story of Muslim Paralympians Representing India at Paris 2024 رکاوٹیں توڑتے اور ایک نسل کو متاثر کرتے ہوئے: پیرس 2024 میں ہندوستان کی نمائندگی کرنے والے مسلمان پیرا اولمپین کی داستان

ترقی کا سفر اکثر مشکلوں کا سامنا کرتا ہے، لیکن چار ہندوستانی مسلمان پیرا اولمپین نے 2024 پیرس کے کھیلوں میں حصہ لیے، یہ مشکلات جسمانی سے کہیں زیادہ تھیں۔ عامر احمد بھٹ، سکینہ خاتون، ارشد شیخ، محمد یاسر نے صرف اپنی معذوری پر فوقیت حاصل نہی کی بلکہ معاشرتی امیدیں کو بھی پورا کیا جو ان سے وابستہ تھیں ان کے معاشرتی پس منظر سے۔ یہ کھلاڑی رول ماڈلز ہیں، خاص کر مسلم نوجوان کیلیے۔ وہ ظاہر کرتے ہیں کہ کیسے ایک انسان اپنی مصیبت سے اوپر اٹھ کراپنے ملک کا سر فخر سے بلند کر سکتاہے۔

کشمیر کے خوبصورت وادی سے تعلق رکھنے والے عامر احمد بھٹ بہت سارے لوگوں کے لیے امید کا چراغ بن چکا ہے پستول شوٹر، جو پی 3- مکسڈ 25 میٹر پستول SH1 کیٹیگری میں مقابلہ کیا ہے، عامر کا پیرا اولمپکس تک کا سفر ثابت قدمی کی ایک داستان ہے۔ جسمانی مشکلات کا سامنا کرنے کے باوجود، انہوں نے پختہ عزم اور استقامت کے ذریعہ دنیا کے عظیم پیرا شوٹر کے بیچ میں اپنا مقام بنایا۔ عامر کی کہانی یاد دلاتی ہے کہ جسمانی معذوری کسی انسان کی طاقت کو محدود نہیں کرتی ہے۔ تنازعات سے متاثرہ علاقہ میں رہنے کی مصیبت کاانہوں نے سامنا کیا، اورانہوں نے اصول اور فضیلت کا راستہ کاانتخاب کیا۔ایساکرکے، انہوں نے ہندوستان کے مسلم نوجوانوں کو دکھا دیا یہ ان کا خواب کو پوراکیاجا سکتا ہے، ان کے حالات سے قطع نظر ہو کر۔ ان کی یہ (وقف) محنت دنیا کے لیے پیغام ہے کہ فطری استعداد اور محنت کسی بھی سرحد کو پار کر سکتی ہے۔ سکینہ خاتون، جو خواتین کی 45 کلوگرام تک پاور لفٹنگ کیٹیگری میں مقابلہ کی ہے، پہلے ہی بھارتی کھیلوں کی تاریخ میں اپنا مقام بنا چکی ہیں۔ ہندوستان کی پہلی خاتون پیرا پاور لفٹر کے طور پر جنہوں نے کامن ویلتھ گیم میں تمغہ جیتا،سکینہ کی کہانی استقامت کی ایک مثال ہے۔ وہ ایسے گھر میں پیدا ہوئیں جن کے پاس محدود وسائل تھے، بچپن میں ہی وہ پولیو کا شکار ہو گئی تھی، جو انہیں تاعمر تک کے لیے معذور کر دی۔اس کے باوجود، انہوں نے ان حالات سے آگے بڑھ کر ترقی حاصل کی، پاور لفٹر کے کی ترقی نے یہ ثابت کر دیا کہ دقیانوسی تصورات کا مقابلہ کیا جا سکتا ہے۔یہ صرف ان معذور عورتوں کے لیے نہیں جنہوں نے یہ ترقی حاصل کی بلکہ کھیل کی دنیا میں تمام عورتوں کے لیے بھی پیغام ہے۔ سکینہ کی کہانی ایک عظیم مثال ہے جو یہ بتاتی ہیں کہ کیسے پختہ اور صحیح مواقع کو حاصل کر کے، عظیم ترقی کی راہ میں جا سکتے ہیں ہندوستان کی بین الاقوامی سطح پر نمائندگی کرتے ہوئے،وہ مسلم نوجوانوں کو متاثر کرتیں ہیں، خاص کر کے نوجوان لڑکیوں کو جو بے خوف اپنے خواب کے حصول میں لگے ہوئے ہیں، یہ جانتے ہوئے کہ وہ بھی توقعات کا بوجھ اٹھا سکتے ہیں۔

ارشد شیخ ایک دوسرا نام ہے جو ہندوستان کا پیرا اولمپک دستہ میں ایک چمکتا ہوا ستارہ ہے۔ مردوں کی سی 2 کیٹیگری میں پیرا سائیکلنگ کے مقابلے میں حصہ لیتے ہوئے، ارشد کی پیرس 2024 پیرا اولمپکس میں شمولیت ایک تاریخی لمحہ ہے، کیونکہ یہ پہلی بار ہے کہ ہندوستان پیرا سائیکلنگ میں ان کھیلوں میں حصہ لیا ہے۔ارشد کی کہانی صرف کھلاڑی کی صلاحیت کی نہیں ہے بلکہ یہ ہمت اور پختہ عزم کا ثبوت ہے۔ اس کا سفر ایک غریب قوم سے شروع ہو کر پیرالمپکس میں بین الاقوامی کے سطح تک، مستقل جدوجہد کی ایک واضح مثال ہے۔ مسلم نوجوان، خاص کر وہ لوگ جو اسی طرح کے مشکلات کا سامنا کرتے ہیں۔ ارشد نے اس خیال کی نمائندگی کیا کہ کوئی بھی اپنی زندگی کے رکاوٹوں کو عبور کر سکتا ہے اور ترقی یافتہ ہو سکتا ہے۔ ان کا سفر پیرالمپکس تک یہ دکھاتا ہے کہ جب راستہ مشکل ہو تو استقامت کے ذریعے فتح حاصل کی جا سکتی ہے۔ محمد یاسر، جو مردوں کے شاٹ پٹ کی F46 کیٹیگری میں مقابلہ کیا ہے، جو ایک دوسرا چمکتا ہوا مثال ہے کہ کیسے پختہ ارادہ مصیبت پر حاوی ہو سکتا ہے۔ جسمانی معذوری کے ساتھ پیدا ہوئے، یاسر نے اسے ان کے مستقبل کا فیصلہ نہیں کرنے دیا۔ انہوں نے کھیلوں میں شمولیت اختیار کی اور شاٹ پٹ میں مہارت حاصل کی، جس کے بعد وہ تیزی سے ترقی کرتے ہوئے بین الاقوامی سطح پر یندوستان کی نمائندگی کیا۔ یاسر کی ترقی یہ صرف ذاتی جیت نہیں ہے بلکہ یہ پوری قوم کی جیت ہے۔ وہ ایک جیتا جاگتا مثال ہے کہ نہ جسمانی معذوری اور نہ ہی معاشرتی توقعات کسی کو اپنے مقاصد کے حصول میں رکاوٹ بن سکتے ہیں۔ پیرالمپکس میں ہندوستان کی نمائندگی کرتے ہوئے، یاسر نوجوانوں کو متاثر کرتے ہیں کہ وہ بھی ان طرح کے مشکلات سے لڑ سکتے ہیں،معاشرتی بوجھ کو عبور کر سکتے ہیں، اور دنیا کے سطح میں شاندار جیت حاصل کر سکتے ہیں۔

ایک ایسی دنیا جہاں پر نوجوان خاص کر کے پسماندہ قوم سے آنے والے، اکثر منفی جذبات اور معاشرتی بوجھ کے اندر متاثر ہوتے ہیں۔ ان چاروں کھلاڑیوں نے امید کی روشنی کے طور پر کھڑے ہیں۔ یہ رول ماڈل ہیں صرف اپنے کھیل کی ترقی کی وجہ سے نہیں بلکہ یہ ان قابل قدر اصولوں کی نمائندگی کرتے ہیں جیسا کہ استقامت، وقف اور وطن پرستی، ان کی کہانی کو زیادہ طاقتور بنا دیتی ہے، کہ کیسے انہوں نے فضیلت کا راستہ اپنایا نہ کہ نا امیدی اور منفی تاثرات میں گرفت ہوئے۔ معذوری کے ساتھ ساتھ، زندگی میں معاشرتی رکاوٹوں کا بوجھ بھی اضافہ ہوتے رہتا ہے۔ جیسا کہ ان کھلاڑیوں نے دکھایا کہ ان مشکلات کو سامنا کرتے ہوئے ترقی ممکن ہے۔ ان کی ترقی ان دقیانوسی تصورات اور غلط فہمی کو دور کرتا ہے۔ خاص کر کے یہ ان لوگوں سے متعلق ہے جو مسلم معاشرے سے آتے ہیں اور معذوری سے لڑ رہے ہیں۔ انہوں نے ثابت کیا کہ ترقی کسی مذہب، علاقہ اور معذوری سے محدود نہیں ہے بلکہ یہ سخت محنت، استقامت اور خواب کے ذریعے اس عظمت کو حاصل کیا جا سکتا ہے۔ ایسے وقت میں جہاں گمراہ ہونا بہت آسان ہے، ان چاروں کھلاڑیوں نے عزت اور اصول کے راستہ کو اپنایا، انہوں نے مشکلات کو طاقت میں بدل دیا۔ایسا کر کے وہ ہندوستان کے تمام مسلم نوجوانوں کے لیے رول ماڈل بن گئے۔ ان کی کہانی ہمیں یاد دلاتی ہے کہ کوئی خواب اور کوئی رکاوٹیں اتنا بڑا نہیں ہے جب کوئی پختہ عزم کر لے اپنے ملک کا سر فخر سے اونچا کرنے کے لیے۔

-الطاف میر

پی ایچ ڈی،

جامعہ ملیہ اسلامیہ

*****

Check Also

(The Impact of India’s New Criminal Laws on the Muslim Community)

مسلم معاشرے پر ہندوستان کے نئے مجرمانہ قوانین کے اثراتحالیہ مہینوں میں، ہندوستان نے نئے …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *