محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت کی حفاظت کے نام پر تشدد میں شامل ہونا: اسلام کا نقطہ نظر
اسلام ایک ایسا مذہب ہے جو سالمیت، صبراور محبت کا درس دیتا ہے، تشدد کی اجازت نہیں دیتا ہے۔ یہاں تک کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے عزت کی حفاظت کے نام پر۔ تشدد کا سہارا لینا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کے خلاف ہے، جو مسلسل اسلام کے بارے میں منفی دقیانوسی تصورات کو پھیلاتا ہے۔ اس کے باوجود، مسلمانوں کو یہ تلقین دی جاتی ہے کہ وہ توہین اورمشتعل کا جواب صبر، رحم اور تعلیم سے دیں۔ ناشک ضلع کے شاہ پنچالے گاؤں میں راہب رام گیری مہاراج کے حالیہ گستاخانہ تبصروں کے جواب میں، پولیس کی طرف سے یہولا، ناشک ضلع، اور ویجاپور، چھترپتی سمبھاجی نگر ضلع دونوں میں مقدمات درج کیے گئے۔ ویجاپور میں، ایک مقامی رہائشی، رافع حسن علی خان کی شکایت پر بھارتیہ نیائی سنہتا (بی این ایس) کی دفعہ 302 کے تحت ایف آئی آر درج کی گئی تھی۔
اس حادثہ کے بعد فرقہ وارانہ کشیدگی چھترپتی سمبھاجی نگر شہر کے ایک حصے میں پھیل گیا، حالانکہ ایک بڑی تشیدگی کو روک دی گئی جو یہ اشارہ کرتا ہے کہ تشدد سے بچنا ممکن ہے اور سالمیت، بھائی چارے کو برقرار رکھنا ہے۔
مسلمان فطری طور پر اس آدمی کی خیال کی نفرت کرتا ہے جو توہین رسالت کا مرتکب ہوتا ہے۔ حالانکہ تشدد میں شامل ہونا اس عمل کے حل کیلیے سحیح راستہ نہیں ہے۔ایف آئی آر دائر کر کے، عدالت تک جا کر کے، جیسا کہ بہت ساری تنظیم اور افراد پورے ہندوستان میں کرتے ہیں، یہ صحیح نقطہ نظر ہے۔ تشدد تشدد کو جنم دیتا ہے۔مسلمان آخر کار نفرت پھیلانے والوں کے ہاتھوں میں پھنس سکتے ہیں اگر وہ جارحیت کا سہارا لیتے ہیں۔ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے تضحیک اور مخالفت کا مقابلہ پوری زندگی بھر کی لیکن ان کا جواب فضل اور معافی سے دیا۔ ان کے مثال کو مانتے ہوئے، مسلمان ان کی تعلیم کو صحیح معنٰی میں عزت دے سکتے ہیں اور سالمیت اور اتحاد کے پیغام کو فروغ دے سکتے ہیں۔ تشدد اسلام کے جوہر کو کمزور کر دیتا ہے اور محبت، ہمدردی کے معتبر تعالیمات کو دوسروں سے دور کر دیتا ہے۔ مسلمان کو یاد رکھنے کی ضرورت ہے کہ ان کا عمل پورے مسلم معاشرے کا عکاسی کرتا ہے۔ نفرت کا نفرت سے جواب دینا تشدد اور غلط فہمی کے دوامت کو برقرار رکھتا ہے، ہمدردی اور برداشت کی اہمیت کو ظاہر کر کے مسلمان منفی دقیانوسی تصورات کا مقابلہ کر سکتے ہیں اور اسلام کی خوبصورتی کو اظہار کر سکتے ہیں۔ جب ان کو اسلام کے خلاف منفی تبصرے و عمل کا مقابلہ ہوں، مسلمان سالمیت اور معلوماتی گفتگو میں رہنے کو انتخاب کریں، تاکہ غلط فہمی دور ہو سکے اور تفہیم کو فروغ دے سکے۔ صبر اور ہمدردی کا ظاہر کرنا منفی دقیانوسی تصورات کا مقابلہ کر سکتا ہے اور اپنے معاشرے اور اس کے اوپر عزت اور اتحاد کو فروغ دے سکتا ہے۔
حالانکہ یہ صرف مسلمانوں کی ذمہ داری نہیں ہے منفی دقیانوسی تصورات کے خلاف لڑنے کے لیے۔ غیر مسلموں کے لیے بھی ضروری ہے کہ وہ اپنے اپ کو تعلیم دیں اور تعصبات کے خلاف لڑیں تاکہ ایک جام معاشرے کی تشکیل ہو۔ اسلام کے تمام طرح کے منفی خیالات اور تبصرے کے خلاف کھڑے ہو کر خواہ تعلیم و وکالت کے ذریعے امتیازی سلوک کو ہٹانا بہت ضروری ہے۔ مثال کے طور پر، کام کرنے کی جگہ میں جہاں ساتھی مسلسل توہین آمیز تبصرے مسلم کے بارے میں کرتے رہتے ہیں۔ یہ بھی بہت ضروری ہے دوسروں کے لیے کہ وہ اس کے خلاف بولیں اور اس سلوک کا حل نکالیں۔ ایک فرد کو ان کے الفاظ کے منفی اثرات کی تعلیم دے کر اور ایک جامع ماحولیات کی وکالت کرکے جو ایک ایسا خلا پیدا کر سکتا ہے جہاں پر تمام لوگ عزت اور اہمیت کو محسوس کر سکیں۔ یہ ذمہ داری کام کرنے کی جگہ سے اوپر تک جاتی ہے دوستوں اور خاندان کے افراد جو تعصبانہ عقائد رکھتے ہیں اور دقیانوسی تصورات اور امتیازی سلوک کے بارے میں کھلے طور پر گفتگو میں شامل ہوتے ہیں، بہت معتبر اقدام اٹھانے کی ضرورت ہے ان رکاوٹ کو توڑنے کے لیے جو ہمیں تقسیم کرتے ہیں۔ یہ ہم میں سے ہر ایک پر ضروری ہے کہ وہ امتیاز سلوک کے خلاف کھڑے ہوں اور سب کے لیے ایک منصف اور مساوی دنیا بنانے کی طرف اگے بڑھیں۔ ہم مل کر ایک فرق بنا سکتے ہیں نفرت پھیلانے والوں کے خلاف لڑنے میں اور آنے والی نسل کے لیے ایک شاندار مستقبل بنا سکتے ہیں۔
الطاف میر
پی ایچ ڈی اسکالر
جامعہ ملیہ اسلامیہ