نیو ایج اسلام خصوصی نمائندہ
22 جنوری 2021
وجودہ دور کے جہادی خود کش بم باری ، جان کی قربانی ، یا ’شہادت کی کارروائیوں کو جنگ اور بے تحاشہ تشدد کے وسیلہ کے طور پراستعمال کرتے ہیں اور اسے جائز بھی ٹھہراتے ہیں۔ اس بیانیہ کے جواز میں قرآن و حدیث اور کلاسیکی اسلام کا استعمال غلط ہے۔ جہادی بیانیہ کی تائید میں، اسلامو فوبیا کے شکار لوگ یہ پرچار کرتے ہیں کہ جہادیت اسلام کی روایتی اور کلاسیکی تشریحات پر مبنی ہے۔ لہذا ہمارے لئے ضروری ہو جاتا ہے کہ ہم اسلام کے بنیادی نصوص کی روشنی میں جہادی بیانیہ کا جائزہ لیں اور اسلامو فوبیا کے شکار لوگوں اور جہادیوں دونوں کا رد کریں، اس طرح ہمارا مقصد عام آدمی کو عدم تشدد کی راہ ہموار کرنا ہے جو جہادی بیانیے کے مسلسل پرچار کا شکار ہو جاتے ہیں ۔
نائن الیون کا حملہ پہلا ایسا موقع نہیں تھا جب کسی دہشت گرد تنظیم نے اپنے ناپاک مقصد کے حصول کے لئے خودکش حملہ کر کے دہشت گردی کا مظاہرہ کیا ہو۔ تاریخ میں ، خود کش تدابیر کی متعدد مثالیں موجود ہیں۔ ۴۰۰ قبل مسیح میں، یونانی ملاحوں نے اپنے جہازوں کو آگ لگا کر دشمن افواج کی طرف چھوڑ دیا تھا۔ اس تدبیر نے اس قدر مقبولیت حاصل کی کہ اس کے لئے ’فائر شپ‘ کی اصطلاح رائج ہو گئی۔سکاری فرقہ کےیہودیوں نے پہلی صدی عیسوی میں ہیلینسٹک دور کے یہودیوں پر خود کش حملے کئے تھے ۔ آرنلڈ وان ونکلریڈ نے 1386 میں سیمپچ کی جنگ میں سوئس کی جدوجہد آزادی کے دوران خود کش حملے کا استعمال کیا تھا۔ ابتدائی صلیبی جنگ میں مسلم حشاشین نے بھی خود کش حملہ کیا تھا۔ دوسری جنگ عظیم میں جاپانی کامیکازےپائلٹوں نے خود کش حملہ کیا تھااور جان بوجھ کر اپنے جہازوں کو دشمن کے ٹھکانوں پر گرادیا تھا۔ ویسے تو خود کش حملوں کی تاریخ طویل ہے ، لیکن موجودہ دور کے خودکش حملے عالمی توجہ کا سبب بنے ہیں۔ ۱۹۸۱ میں الدعوہ پارٹی نے بیروت میں واقع عراقی سفارت خانے کو کار بم دھماکہ سے اڑا یا تھا، ۱۹۸۳ میں حزب اللہ نے امریکی سفارت خانے ، امریکی بحریہ اور فرانسیسی بیرکوں پر خود کش حملہ کیا تھا۔ یہ موجودہ دور کی خود کش حملوں کی کچھ مثالیں ہیں۔
القاعدہ ، حماس ، شہداء اقصی بریگیڈ ، فتح، طالبان ، داعش ، بوکو حرام جیسی انتہاپسند اورعسکریت پسند تنظیموں کو پوری دنیا میں ان کی خود کش کاروائیاں کے وجہ سے کافی شہرت ملی ۔تاہم ، یہ تنظیمیں اپنے خود کش حملے کو استشہاد کا نام دیتی ہیں اور خودکشی کی اصطلاح کے استعمال کو ناپسند کرتی ہیں، کیونکہ اسلام خود کشی کی سخت ممانعت کرتاہے۔ خودکش کاروائی یعنی عملیات انتحاریہ کی اصطلاح کے بجائے وہ فدائی کاروائی یعنی عملیات فدائیہ اور عملیات استشہادیہ کی اصطلاحوں کے استعمال پر زور دیتی ہیں، اور اپنے ناپاک مقاصد کی تحصیل کی خاطر فدائیت اور نام نہاد شہادت کی کاروائیوں کے جواز کے لئے کافی جدوجہد کرتی ہیں ۔
القاعدہ کی سعودی شاخ کے با اثر رہنمايوسف العييري (۱۹۷۳-۲۰۰۳) نے “عملیات استشہادیہ کی شرعی حیثیت” کے عنوان سےایک پمفلٹ جاری کیا ۔ا لعييري اس بات پر زور دے کر کہتے ہیں کہ خود کش حملوں کے ذریعے “شہادت کی کاروائیاں”، نہ صرف یہ کہ جائز ہیں بلکہ اعلی فوجی قوتوں کا ضروری جواب بھی ہیں۔ وہ کہتے ہیں:
اما أثرها على العدو , فإننا و من خلال واقع نلمسه ونعايشه, فقد رأينا أن أثرها على العدو عظيم. بل لا يوجد نوع من العمليات أعظم في قلوبهم رعبا من هذا النوع.
جہاں تک دشمن پر شہادت کی کارروائیوں کے اثرات کا تعلق ہے، اب تک کے تجربات سے معلوم ہوتا ہے کہ دشمن کے دلوں میں دہشت پھیلاکر ان کے جذبہ کو ختم کرنے کے لئے شہادت سے زیادہ کارگر کوئی اور تکنیک نہیں ہے۔
جنگ کے اخراجات سے متعلق بات کرتے ہوئے العییری کہتے ہیں:
مادی سطح پر ، ان کاروائیوں سے دشمن کو سب سے زیادہ نقصان پہنچتا ہے اور اس کی لاگت بھی کم پڑتی ہے۔ دوسرے حملوں کے مقابلے میں اس کی لاگت نہ کے برابر ہے۔ جانی نقصان صرف ایک ہے ، اور وہ بھی در حقیقت شہید ہو کر ہیرو کی طرح ہم سب سے پہلے ابدی جنت میں داخل ہوگا۔ ان شاءاللہ۔ جہاں تک دشمن کا تعلق ہے ان کا نقصان تو کافی زیادہ ہے۔ (عملیات استشہاد کی شرعی حیثیت، صفحہ نمبر ۲و ۳ (انگریزی نسخہ)) عربی نسخہ میں صفحہ نمبر ۱۰ پر ہے ۔پمفلٹ عربی میں”ہل انتحرت حواء ام استشہدت”کے نام سے ہے۔
اس طرح کے حملوں کی مشروعیت کے بارے میں ، العییری ضرورت اور فائدہ کی موضوعی نوعیت کے تحت بات کرتے ہیں۔ موجودہ دور کےعلماء نے ان حالات پر بحث کی ہے جن میں اس طرح کے حملوں کی اجازت ملی ہے۔ مثال کے طور پر بااثر مذہبی عالم یوسف القرضاوی نے اگر چہ نائن الیون کےحملوں میں امریکی شہریوں کےمارے جانے کی شدید مذمت کی تھی، لیکن اس سے پہلے ۱۹۹۷ میں انہوں نے ایک فتوی جاری کر کے فوجی ضرورت کے تحت اسرائیل میں خودکش بم دھماکے کو جائز قرار دیا تھا۔ القرضاوی فرماتے ہیں:
إن المجتمع الإسرائيلي عسكري بطبيعته. فالرجال والنساء يخدمون في الجيش على حد سواء، ويمكن أن يُجنَّدوا على نحو إلزامي في أي لحظة. ومن جهةأخرى، لو قتِل طفل أو كهل في عملية كهذه، فهو لا يُقتلقصداً وإنمابالخطأ، كنتيجة للضرورة العسكرية. فالضرورة تبرر ما هو محظور.
ترجمہ:
اسرائیلی معاشرہ فطرتا عسکریت پسند ہے، مرد اور عورت دونوں ہی فوج میں کام کرتے ہیں، اور انہیں کسی بھی لمحے لازمی طور پر فوج میں شامل کیا جاسکتا ہے، دوسری طرف ، اگر اس طرح کی کاروائیوں میں کوئی بچہ یا بوڑھا مارا جائے تو وہ فوجی ضرورت کے نتیجے میں قصدا نہیں خطاءاً مارا جائے گا ۔ ضرورتیں حرام چیزوں کو جائز کر دیتی ہیں۔
(القرضاوی، شرعية العمليات الاستشهادية في الأراضي المحتلة، یہ اقتباس محمد منیر کے مضمون الہجمات الانتحاریۃ و القانون الاسلامی کے صفحہ نمبر ۴ پر منقول ہے۔ )
خود کش حملوں یا نام نہاد “شہادت آپریشن کے خلاف علما کرام کا اس بات پر اجماع ہے کہ خواتین ، بچے ، بوڑھے اور غیر محارب کو مارنا جائز نہیں ہے ، اور زندگی کی حرمت تو شریعت کے بنیادی ماخذوں میں ہر جگہ موجود ہے۔ روایتی اور کلاسیکی ماخذوں میں جنگ کے دوران خود کش کارروائیوں سے متعلق کوئی واضح بحث موجود نہیں ہے۔ لہذا،جہادیوں کی خود کش یا “شہادت” ا ٓپریشن کی تائیدکلاسیکی اور روایتی فقہا اور علما کے حوالے سے نہیں کی جا سکتی ہے۔
نیو ایج اسلام کے مستقل کالم نگارجناب غلام غوث صدیقی صاحب لکھتے ہیں :
“تاہم ، اس طرح کی اصطلاح سازی حکم الہی کو دبانے کے لئے کافی نہیں ہے، خود سوزی کا جواز کسی بھی حالت میں نہیں ہے۔ انہیں (جہادیوں)کو ان مسلم اسکالرز اور علما کی تنقیدوں کے جواب میں کوئی مضبوط دلیل لانی ہوگی ، جنہوں نے مرکزی دھارے کی مسلم دنیا کو ہر وقت یہ یقین دلایا ہے کہ خود کش حملہ ہر صورت میں ممنوع ہے۔
لہذا شہادت آپریشن کے بیانیہ کے تحت قرآن کی مندرجہ ذیل آیات کا حوالہ دیتے ہوئےوہ یہ بتانا چاہتے ہیں کہ قرآن شہادت کو تسلیم اور اس کی تعریف کرتا ہے ۔
إِنَّ ٱللَّهَ ٱشْتَرَىٰ مِنَ ٱلْمُؤْمِنِينَ أَنفُسَهُمْ وَأَمْوَٰلَهُم بِأَنَّ لَهُمُ ٱلْجَنَّةَ ۚ يُقَـٰتِلُونَ فِى سَبِيلِ ٱللَّهِ فَيَقْتُلُونَ وَيُقْتَلُونَ ۖ وَعْدًا عَلَيْهِ حَقًّۭا فِى ٱلتَّوْرَىٰةِ وَٱلْإِنجِيلِ وَٱلْقُرْءَانِ ۚ وَمَنْ أَوْفَىٰ بِعَهْدِهِۦ مِنَ ٱللَّهِ ۚ فَٱسْتَبْشِرُوا۟ بِبَيْعِكُمُ ٱلَّذِى بَايَعْتُم بِهِۦ ۚ وَذَٰلِكَ هُوَ ٱلْفَوْزُ ٱلْعَظِيمُ (سورہ التوبہ، آیت نمبر ۱۱۱)
ترجمہ:
بلا شبہ اللہ تعالی نے مسلمانوں سے ان کے جانوں کو ان کے مالوں کو اس بات کے عوض میں خرید لیا ہے کہ ان کو جنت ملے گی ۔ وہ لوگ اللہ کی راہ میں لڑتے ہیں جس میں قتل کرتے ہیں اور قتل کئے جاتے ہیں، اس پر سچا وعدہ کیا گیا ہے تورات میں ، انجیل میں اور قرآن میں اور اللہ سے زیادہ اپنے عہد کو کون پورا کرنے والا ہے۔ تو تم لوگ اپنی اس بیع پر جس کا تم نے معاملہ ٹھہرایا ہے خوشی مناو اور یہ بڑی کامیابی ہے۔
وَ لَا تَقُوْلُوْا لِمَنْ یُّقْتَلُ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ اَمْوَاتٌؕ-بَلْ اَحْیَآءٌ وَّ لٰكِنْ لَّا تَشْعُرُوْنَ (سورہ البقرۃ آیت نمبر ۱۵۴)
ترجمہ: اور جو اللہ کی راہ میں مارے جائیں انہیں مردہ نہ کہوبلکہ وہ زندہ ہیں، ہاں تمہیں خبر نہیں۔
شہدا کی تمجید میں ان قرآنی آیات کے علاوہ جہادی صحیح بخاری اور صحیح مسلم جیسی حدیث کی مشہور کتابوں سے بھی متعدد احادیث نقل کرتے ہیں۔ مزید یہ کہ وہ ” اللہ تعالٰی کی خاطر” قتال کرنے میں فخربھی محسوس کرتے ہیں۔
اگر کوئی انسان جوخلوت میں حقیقی سکون اور عرفان الہی کی تلاش میں ہو اور وہ پھر اسلامی بیانیہ اور جہادی بیانیہ پر تقابلا غور کرے تو سورہ المائدہ کی آیت نمبر ۳۲سےاس پر چونکانے والی اس حقیقت کا انکشاف ہوتا ہے کہ اصلی خدا تو بےگناہ شہریوں کو اس بے دردی سے مارنے کی کی اجازت نہیں دے سکتا۔صرف اس بات سے ہی وہ یہ سمجھ جاتا ہے کہ جہادی اللہ تعالٰی کی مسلم مخلوق اورغیر مسلم مخلوق دونوں کو ختم کرنے میں لگے ہیں، اور جہادیت خدا کا راستہ اور خدا کی منشا نہیں ہے۔ لہذا جہادی اللہ کی راہ میں نہیں بلکہ اللہ تعالٰی کے حکم کی خلاف ورزی میں مر رہے ہیں اور مارے جا رہے ہیں۔ سورہ المائدہ کی آیت نمبر ۳۲ میں اللہ تعالی انسانوں کوناحق قتل کرنے سے منع کرتا ہے۔
اللہ تعالی فرماتا ہے: مَنۡ قَتَلَ نَفۡسًۢا بِغَيۡرِ نَفۡسٍ اَوۡ فَسَادٍ فِى الۡاَرۡضِ فَكَاَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِيۡعًا
ترجمہ: جس نے کسی انسان کو خون کے بدلے کے بٍغیر یا زمین میں فساد (روکنے) کے علاوہ قتل کیا تو گویا اس نے تمام انسانوں کو قتل کر دیا
غور طلب بات یہ ہے کہ شہادت کے نام پر بے گناہ شہریوں کا ناحق قتل کیسے جائز ہو سکتا ہے جبکہ انہیں کاروائیوں کو اگرخود کش حملہ کہا جائے تواسلام میں اس کی سخت ممانعت آئی ہے۔ کسی غلط کام کو صرف نام بدل کر تو اچھا نہیں کیا جا سکتا۔ جہادی چاہے اپنے حملوں کو خود کش حملہ کہیں، خود کش آپریشن بولیں یا پھر شہادت آپریشن، ان کا حملہ اسلام کی صریح خلاف ورزی ہے۔ جن وجوہات کی بنا پر خود کش حملوں کو حرام قرار دیا جاتا ہےوہ ساری وجوہات شہادت آپریشن میں بھی پائی جاتی ہیں اور اس لئے وہ بھی حرام ہیں۔ آسان لفظوں میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ جیسے نام بدلنے سے کوئی حرام چیز حلال نہیں ہو سکتی ہے اسی طرح خود کش حملے کو شہادت آپریشن کہہ دینے سے وہ جائز نہیں ہو جاتا ہے۔ “
اپنے ایک دوسرے مضمون میں، جناب غلام غوث صدیقی صاحب نے متعدد قرآنی آیات اور حدیث نبوی کے حوالے سے ثابت کیا ہے کہ خود کش حملہ کسی بھی حالت میں جائز نہیں ہے، جہاد کے دوران بھی نہیں اور جنگی حربے کے طور پر بھی نہیں۔ اس سے اس جہادی نظریہ کا بھی رد ہو جاتا ہے جو کہتا ہے کہ خودکش حملہ یا نام نہاد ‘شہادت آپریشن’ کو جنگی حربے کے تحت جائز قرار دیا جاسکتا ہے۔ ذیل ان کے مضمون سے کچھ اقتباسات ہیں دیئے جاتے ہیں۔
دوسروں کو مارنے کے لئے یا کسی بھی وجہ سے خودکش حملہ کرنے کی سخت ممانعت آئی ہے، اللہ تعالی فرماتا ہے:
ولا تقتلوا انفسكم (سورہ النساء، آیت نمبر۲۹)
ترجمہ: اور خود کو قتل مت کرو
ایمان والوں کے لئے اللہ تعالی کا یہ حکم ہے۔ یہ بات بالکل واضح ہے کہ اس حکم کو صرف فرمانبردار مومنین ہی کیوں اہم سمجھیں گے۔ صرف نافرمان ہی اپنے آپ کو قتل کریں گے۔ اس آیت میں خود کش حملے کی ممانعت بطوراِطلاقِ عمومی ہے۔ بغیر کسی تخصیص کے اس طرح کے کسی بھی خودکش حملےکی اجازت نہیں ہے۔
سورہ النساء کی آیت نمبر ۲۹ کی تفسیر میں امام فخر الدین الرازی لکھتے ہیں:
اس آیت (ولا تقتلوا انفسكم) سے ثابت ہوتا ہے کہ خود کو قتل کرنا یا کسی دوسرے کو نا حق قتل کرنا جائز نہیں ہے۔ (التفسیر الکبیرللرازی، جلد نمبر ۱۰ صفحہ نمبر ۵۷)
سورہ النساء کی آیت نمبر ۲۹ میں خودکش حملہ کی ممانعت ہے اور ٹھیک دوسری آیت میں یعنی آیت نمبر ۳۰ میں ا للہ تعالی خودکش حملہ آوروں کی سزا کے لئےقانون بناتا ہے۔ اللہ تعالی فرماتا ہے
وَمَنۡ يَّفۡعَلۡ ذٰ لِكَ عُدۡوَانًا وَّظُلۡمًا فَسَوۡفَ نُصۡلِيۡهِ نَارًا ؕ وَكَانَ ذٰ لِكَ عَلَى اللّٰهِ يَسِيۡرًا
ترجمہ: اور جو شخص تعدی اور ظلم سے یہ کام کرے گا، تو ہم اسے آگ میں ڈالیں گے، اور یہ اللہ کے لئے آسان ہے۔
علما اور فقہا کا اس بات پر عام اتفاق ہے کہ اگر اللہ تعالی کا حکم عموم پر دلالت کرے تو اس کی تخصیص بغیر کسی ثبوت کے جائز نہیں ہے۔ لہذا ، داعش یا کسی اور دہشت گرد تنظیم کے لئے جائز نہیں ہے کہ وہ اس طرح کے خود کش حملے کو جہاد کا نام دے کر جائز قرار دے۔ اس آیت کے عام اطلاق سےوہابیت سے متاثر ان تمام علماء کا رد ہو جاتا ہے جو کہتے ہیں کہ بعض حالات میں جنگی حربہ کے طور پر خودکش بم دھماکے کا استعمال جائز ہے۔
یہ دیکھنا ضروری ہوگا کہ دہشت گرد تنظیموں کے نام نہاد جہاد کا مقصد عام شہریوں کو مارنا ہوتا ہے جس میں مسلم اور غیر مسلم دونوں شامل ہوتے ہیں۔ دہشت گرد تنظیموں کو اسلام کا اتنا آسان سا پیغام بھی سمجھ میں نہیں آتا ہے کہ جہاد بالقتال کی کچھ شرطیں ہیں اور اگر طرفین باہمی رضامندی سے امن معاہدے کے لئے راضی ہو جائیں تو قتال نہیں کیا جا سکتا ہے۔ جہادی قرآن و حدیث سے مستنبط اس پیغام کو نہیں سمجھتے ہیں کہ امن معاہدے میں کئے گئے وعدے کو توڑنا اسلام میں گناہ عظیم ہے۔ اس لئے دہشت گرد تنظیموں کو چاہیے کہ وہ اپنی اصلاح کریں اور یہ مانیں کہ ان کے نام نہاد جہاد کا کوئی جواز نہیں ہے۔ دوسری غور طلب بات یہ ہے کہ اللہ تعالی نے خود کشی کی عمومی ممانعت کی ہے۔ خود کش حملہ وروں کی سزا جہنم کی آگ ہے۔ لہذا، کسی خاص دلیل کے بغیر جہادی تنظیم اور برین واشڈ نوجوانوں کو اس کی تخصیص کبھی نہیں کرنی چاہئیے۔
ایک دوسری آیت میں اللہ تعالی فرماتا ہے:
وَ لَا تُلْقُوْا بِاَیْدِیْكُمْ اِلَى التَّهْلُكَةِ وَ اَحْسِنُوْا-اِنَّ اللّٰهَ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیْنَ (سورہ البقرۃ، آیت نمبر۱۹۵)
ترجمہ: اور اپنے ہاتھوں ہلاکت میں نہ پڑو اور نیکی اختیار کرو، بےشک نیکی اختیار کرنے والوں سے اللہ محبت کرتا ہے۔
فقہاء اور مفسرین کا اس بات پر اتفاق ہے کہ اس آیت کے نزول کا سیاق اللہ کے راستے میں خرچ کرنا ہے۔ تاہم، انہوں نے اس آیت کو بطور دلیل اس بات کو ثابت کر نے کے لئے بھی نقل کیا ہے کہ خود کی جان لینا یا کسی بھی طرح کا خود کش حملہ کرنا ممنوع ہے۔ ان کے دعوے کی دلیل یہ ہے کہ اس آیت میں مذکور تہلکہ کا لفظ عام ہے، ساتھ ہی خود کش حملوں کی ممانعت کے لئے انہوں نے سورہ النساء کی آیت نمبر ۲۹ اور ۳۰ کو اور متعدد احادیث کو بھی نقل کیا ہے۔
امام بغوی سورہ النساء کی آیت نمبر ۳۰ کی تفسیر میں سورہ البقرہ کی آیت نمبر ۱۹۵ کو نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ کہا جاتا ہے اس آیت میں اس نے (اللہ ) نے مسلم کا ذکر کیا ہے جو خود کو قتل کرتا ہے ۔ (تفسیر البغوی ، جومعالم التنزیل کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، جلد ۱ ، صفحہ ۴۱۸ )
حافظ ابن حجر العسقلانی فرماتے ہیں:
جہاں تک سورہ البقرہ کی آیت نمبر ۱۹۵ کو اللہ کی راہ میں نہ خرچ کرنے کے سیاق کے ساتھ تخصیص کی بات ہے، اس پرمزید بحث کی ضرورت ہے کیونکہ اس حکم کی بنا عام ہے۔ (فتح الباری، جلد ۸ ، صفحہ ۱۱۵)
امام شوکانی فرماتے ہیں :
سورہ البقرہ کی آیت نمبر ۱۹۵ کے مفہوم کے بارے میں علمائے متقدمیں کی مختلف آراء ہیں۔ لیکن سچ تو یہ ہے کہ یہ لفظ عام ہے، خاص نہیں۔ لہذا وہ ساری چیزیں جو دنیوی اور مذہبی لحاظ سے تہلکہ یعنی تباہی کے دائرے میں آتی ہیں اس لفظ کے مفہوم میں شامل ہوں گی۔ (تہلکہ کا ذکر سورہ البقرہ کی آیت نمبر ۱۹۵ میں آیا ہے) ابن جریر طبری کی بھی یہی رائے ہے۔ (فتح القدیر، جلد ۱ صفحہ، ۱۹۳)
اسلامی فقہ کے مشہور اصول العبرۃ بعموم اللفظ لا بخصوص السبب کو بنیاد مان کر میں یہاں اسلامی علما اور فقہا کے نقش قدم پر چلتے ہوئے کہوں گا کہ اس آیت میں میں ہر طرح کی تباہی کی ممانعت ہے جس میں ہر طرح کے خود کش حملے شامل ہیں۔
تہلکہ کے عام مفہوم کو سمجھنے اور سورہ البقرہ کی آیت نمبر ۱۹۵ کی تفسیر سورہ النساء آیت نمبر ۲۹ سے کر لینے کے بعد، ایمان والوں پر یہ بات بالکل واضح ہو جاتی ہے کہ خود کش حملہ حرام ہے۔ بہرحال، اگرریڈیکل نظریات سے کسی کی اتنی برین واشنگ کر دی گئی ہے کہ وہ ان دونوں آیات کی صحیح تفسیر تک نہیں پہونچ پا رہا ہے اور شک و شبہ کا شکار ہے، تو ہم اس کی دماغ کی تطہیرکے لئے اللہ کے رسول ﷺ کی ان متعدد احادیث کا ذکر کرنا چاہیں گے جن میں کسی بھی طرح کے خود کش حملے کی ممانعت کی گئی ہے۔
نبی کریم ﷺ فرماتے ہیں:
من تردى من جبل فقتل نفسه فهو في نار جهنم، يتردى فيه خالدا مخلدا فيها ابدا، و من تحسى سما فقتل نفسه فسمه في يده يتحساه في نار جهنم خالدا مخلدا فيها ابدا، ومن قتل نفسه بحديدة فحديدته في يده يجا بها في بطنه في نار جهنم خالدا مخلدا فيها ابدا (صحیح البخاری، کتاب الطب، بَابُ شُرْبِ السُّمِّ، وَالدَّوَاءِ بِهِ، وَبِمَا يُخَافُ مِنْهُ)
جس نے پہاڑ سے اپنے آپ کو گرا کر خودکشی کر لی وہ جہنم کی آگ میں ہو گا اور اس میں ہمیشہ پڑا رہے گا اور جس نے زہر پی کر خودکشی کر لی وہ زہر اس کے ساتھ میں ہو گا اور جہنم کی آگ میں وہ اسے اسی طرح ہمیشہ پیتا رہے گا اور جس نے لوہے کے کسی ہتھیار سے خودکشی کر لی تو اس کا ہتھیار اس کے ساتھ میں ہو گا اور جہنم کی آگ میں ہمیشہ کے لیے وہ اسے اپنے پیٹ میں مارتا رہے گا۔
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا:
الذي يخنق نفسه يخنقها في النار، والذي يطعنها يطعنها في النار (صحیح البخاری، کتاب الجنائز، بَابُ مَا جَاءَ فِي قَاتِلِ النَّفْسِ)
جو شخص خود اپنا گلا گھونٹ کر جان دے ڈالتا ہے وہ جہنم میں بھی اپنا گلا گھونٹتا رہے گا اور جو برچھے یا تیر سے اپنے تئیں (آپ کو) مارے وہ دوزخ میں بھی اس طرح اپنے (آپ کو) تئیں مارتا رہے گا۔
ایک دوسری روایت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا:
من حلف بملة غير الإسلام كاذبا فهو كما قال، ومن قتل نفسه بشيء عذب به في نار جهنم، ولعن المؤمن كقتله، ومن رمى مؤمنا بكفر فهو كقتله۔ (صحیح البخاری، کتاب الادب، بَابُ مَنْ كَفَّرَ أَخَاهُ بِغَيْرِ تَأْوِيلٍ فَهْوَ كَمَا قَالَ)
ترجمہ:
جس نے اسلام کے سوا کسی اور مذہب کی جھوٹ موٹ قسم کھائی تو وہ ویسا ہی ہو جاتا ہے، جس کی اس نے قسم کھائی ہے اور جس نے کسی چیز سے خودکشی کر لی تو اسے جہنم میں اسی سے عذاب دیا جائے گا اور مومن پر لعنت بھیجنا اسے قتل کرنے کے برابر ہے اور جس نے کسی مومن پر کفر کی تہمت لگائی تو یہ اس کے قتل کے برابر ہے۔
خود کش حملوں کی دعوت دینے والے رہنماؤں کی اطاعت ممنوع ہے، ثبوت کے لئے حدیث پیش ہے:
ان رسول الله صلى الله عليه وسلم بعث جيشا وامر عليهم رجلا، فاوقد نارا، وقال: ادخلوها فاراد ناس ان يدخلوها، وقال الآخرون: إنا قد فررنا منها، فذكر ذلك لرسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال: للذين ارادوا ان يدخلوها لو دخلتموها لم تزالوا فيها إلى يوم القيامة، وقال للآخرين: قولا حسنا، وقال: لا طاعة في معصية الله إنما الطاعة في المعروف۔ (صحیح مسلم، کتاب الامارۃ، باب وُجُوبِ طَاعَةِ الأُمَرَاءِ فِي غَيْرِ مَعْصِيَةٍ وَتَحْرِيمِهَا فِي الْمَعْصِيَةِ، یہ حدیث بخاری میں بھی ہے)
ترجمہ:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک لشکر بھیجا اور اس پر حاکم کیا ایک شخص کو اس نے انگار جلائے اور لوگوں سے کہا اس میں گھس جاؤ۔ بعض نے چاہا اس میں گھس جائیں، اور بعض نے کہا کہ ہم انگار سے بھاگ کر تو مسلمان ہوئے اور کفر چھوڑا جہنم سے ڈر کر اب پھر انگار ہی میں گھسیں، یہ ہم سے نہ ہو گا۔ پھر اس کا ذکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے آیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ان لوگوں سے جنہوں نے گھسنے کا قصد کیا تھا: ”اگر تم گھس جاتے تو ہمیشہ اسی میں رہتے قیامت تک۔“ (کیونکہ یہ خودکشی ہے اور وہ شریعت میں حرام ہے) اور جو لوگ گھسنے پر راضی نہ ہوئے ان کی تعریف کی اور فرمایا: ”اللہ کی نافرمانی میں کسی کی اطاعت نہیں بلکہ اطاعت اسی میں ہے جو دستور کی بات ہو۔“
الفاظ کے تھوڑے پھیربدل کے ساتھ یہی روایت حدیث کی متعدد کتابوں میں درج ہے۔ مثال کے طور پر سنن نسائی، کتاب البیع’ ، بَابُ جَزَاءِ مَنْ أُمِرَ بِمَعْصِيَةٍ فَأَطَاعَ میں یہ حدیث موجود ہے۔ اور اسی طرح یہ حدیث سنن ابی داود کتاب الجہاد، باب فی الطاعۃ میں بھی ہے۔
اس حدیث کے مطابق ، رہنماؤں کی اطاعت صرف اچھی چیزوں میں ہونی چاہئے، خودکش حملے جیسی بری چیزوں میں نہیں۔ خود کش حملہ آوروں پرجنت حرام ہے۔
جندب ابن عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے نقل ہے ، وہ کہتے ہیں کہ اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا۔
كان فيمن كان قبلكم رجل به جرح فجزع فاخذ سكينا فحز بها يده فما رقا الدم حتى مات، قال الله تعالى بادرني عبدي بنفسه حرمت عليه الجنة۔
(صحیح البخاری، کتاب احادیث الانبیاء، باب بَابُ مَا ذُكِرَ عَنْ بَنِي إِسْرَائِيلَ، صحیح مسلم، کتاب الایمان، باب غِلَظِ تَحْرِيمِ قَتْلِ الإِنْسَانِ نَفْسَهُ وَإِنَّ مَنْ قَتَلَ نَفْسَهُ بِشَيْءٍ عُذِّبَ بِهِ فِي النَّارِ وَأَنَّهُ لاَ يَدْخُلُ الْجَنَّةَ إِلاَّ نَفْسٌ مسْلِمَةٌ یعنی خودکشی کرنے کی سخت حرمت کا بیان، اور جو شخص خودکشی کرے گا اس کو آگ کا عذاب دیا جائے گا، اور جنت میں صرف مسلمان ہی داخل ہو گا)
ترجمہ:
پچھلے زمانے میں ایک شخص (کے ہاتھ میں) زخم ہو گیا تھا اور اسے اس سے بڑی تکلیف تھی، آخر اس نے چھری سے اپنا ہاتھ کاٹ لیا اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ خون بہنے لگا اور اسی سے وہ مر گیا پھر اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ میرے بندے نے خود میرے پاس آنے میں جلدی کی اس لیے میں نے بھی جنت کو اس پر حرام کر دیا۔
قرآن و حدیث کے مطابق خودکش حملے کی ممانعت کا حکم عام ہے۔ داعش کے عسکریت پسند اور دیگر دہشت گرد تنظیمیں نام نہاد جہاد اور شہادت کے نام پر خود کش حملے کو جائز قرار دے کر نوجوانوں کو برین واش کرتے ہیں۔ بخدا وہ لوگ مندرجہ ذیل حدیثوں کو توڑ مروڑ کر پیش کر رہے ہیں اور ان سے پہلو تہی کررہے ہیں جن میں حقیقی جہاد یعنی دفاعی جہاد کے دوران بھی خود کشی سے منع کیا گیا ہے، چہ جائے کی آج کل لڑی جا رہی نام نہاد جہاد۔
حضرت سہل سے روایت ہے وہ فرماتے ہیں:
التقى النبي صلى الله عليه وسلم والمشركون في بعض مغازيه فاقتتلوا، فمال كل قوم إلى عسكرهم، وفي المسلمين رجل لا يدع من المشركين شاذة ولا فاذة إلا اتبعها فضربها بسيفه، فقيل: يا رسول الله، ما اجزا احد ما اجزا فلان، فقال:” إنه من اهل النار، فقالوا: اينا من اهل الجنة إن كان هذا من اهل النار؟، فقال رجل من القوم: لاتبعنه، فإذا اسرع وابطا كنت معه، حتى جرح فاستعجل الموت، فوضع نصاب سيفه بالارض وذبابه بين ثدييه، ثم تحامل عليه، فقتل نفسه، فجاء الرجل إلى النبي صلى الله عليه وسلم فقال: اشهد انك رسول الله، فقال:” وما ذاك؟”، فاخبره، فقال:” إن الرجل ليعمل بعمل اهل الجنة فيما يبدو للناس وإنه لمن اهل النار، ويعمل بعمل اهل النار فيما يبدو للناس وهو من اهل الجنة۔ (صحیح البخاری، کتاب المغازی، باب بَابُ غَزْوَةُ خَيْبَرَ، صحیح مسلم، کتاب الایمان، باب غِلَظِ تَحْرِيمِ قَتْلِ الإِنْسَانِ نَفْسَهُ وَإِنَّ مَنْ قَتَلَ نَفْسَهُ بِشَيْءٍ عُذِّبَ بِهِ فِي النَّارِ وَأَنَّهُ لاَ يَدْخُلُ الْجَنَّةَ إِلاَّ نَفْسٌ مُسْلِمَةٌ)
ترجمہ:
ایک غزوہ (خیبر) میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور مشرکین کا مقابلہ ہوا اور خوب جم کر جنگ ہوئی آخر دونوں لشکر اپنے اپنے خیموں کی طرف واپس ہوئے اور مسلمانوں میں ایک آدمی تھا جنہیں مشرکین کی طرف کا کوئی شخص کہیں مل جاتا تو اس کا پیچھا کر کے قتل کئے بغیر وہ نہ رہتے۔ کہا گیا کہ یا رسول اللہ! جتنی بہادری سے آج فلاں شخص لڑا ہے ‘ اتنی بہادری سے تو کوئی نہ لڑا ہو گا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ اہل دوزخ میں سے ہے۔ صحابہ رضی اللہ عنہم نے کہا ‘ اگر یہ بھی دوزخی ہے تو پھر ہم جیسے لوگ کس طرح جنت والے ہو سکتے ہیں؟ اس پر ایک صحابی بولے کہ میں ان کے پیچھے پیچھے رہوں گا۔ چنانچہ جب وہ دوڑتے یا آہستہ چلتے تو میں ان کے ساتھ ساتھ ہوتا۔ آخر وہ زخمی ہوئے اور چاہا کہ موت جلد آ جائے۔ اس لیے وہ تلوار کا قبضہ زمین میں گاڑ کر اس کی نوک سینے کے مقابل کر کے اس پر گر پڑے۔ اس طرح سے اس نے خودکشی کر لی۔ اب وہ صحابی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہا کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ اللہ کے رسول ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کہ کیا بات ہے؟ انہوں نے تفصیل بتائی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایک شخص بظاہر جنتیوں جیسے عمل کرتا رہتا ہے حالانکہ وہ اہل دوزخ میں سے ہوتا ہے۔ اسی طرح ایک دوسرا شخص بظاہر دوزخیوں کے سے عمل کرتا رہتا ہے حالانکہ وہ جنتی ہوتا ہے۔
وہابیت سے متاثر کچھ علما جنگی حربے کے طور پر بعض حالات میں خودکش حملے کے جواز کی حمایت کرتے ہیں ۔ یہ اسلام کی روح کےبالکل متضاد ہے۔ سورہ البقرہ کی آیت نمبر ۱۹۵ اور حضرت سہل والی حدیث کے عمومی اطلاق سے وہابیوں کے اس نقطہ نظر کا رد ہو جاتا ہے جو بعض حالات میں خودکش بم دھماکے کو جائز سمجھتا ہے۔ سورہ البقرہ کی آیت نمبر ۱۹۵ کے مطابق جب تمام حالات میں خودکش حملہ حرام ہے، اور اسی طرح مذکورہ بالا حدیث کے مطابق جب دوران جہاد بھی خود کش حملہ کی ممانعت ہے تو فتنہ کی حالت میں یہ کیسے جائز ہو ساکتا ہے؟ قرآن و حدیث دونوں سے ہر حالت میں خود کش حملے کی ممانعت کا پتہ چلتا ہے لیکن وہابیت اسے کچھ حالات میں جائز قرار دیتی ہے۔ اس طرح ، وہابی اللہ کی حدود سے تجاوز کر رہے ہیں اور قرآن کے اس پیغام کو فراموش کر چکے ہیں کہ إن الله لا يحب المعتدين (سورہ البقرہ، آیت نمبر۱۹۰) اللہ حد سے تجاوز کرنے والوں کو پسند نہیں فرماتا ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ مسلم دانشور، علمائے کرام ، اور اسکالرز اسلام کے اس واضح پیغام کو عام کریں کہ خود کش حملہ ہر حالت میں حرامہے، اس کی تخصیص کر کے بعض حالات میں اسے جائز قرار نہیں دیا جا سکتا ہے، اگر ایسا نہیں کیا گیا تو دہشتگرد خودکشی کے لئے بھولے بھالے لوگوں کو بہلا کر بے گناہوں کی بے تحاشا جان لیتے رہیں گے۔
ایک روایت میں آتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خودکشی کرنے والے شخص کی نماز جنازہ نہیں پڑھی۔
حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:
أُتِيَ النَّبِيُّ صلی الله علیه وآله وسلم بِرَجُلٍ قَتَلَ نَفْسَهُ بِمَشَاقِصَ، فَلَمْ يُصَلِّ عَلَيْهِ (صحیح مسلم، كتاب الجنائز، باب ترك الصلاة على القاتل نفسه)
ترجمہ: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے ایک شخص لایا گیا جس نے اپنے آپ کو ایک تیر سے ہلاک کر لیا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کی نماز جنازہ نہیں پڑھی۔
مذکورہ بالا آیات اور متعدد احادیث کا تجزیہ کرنے کے بعد یہ بات بالکل واضح ہو جاتی ہے کہ عسکریت پسندوں نے استنبول کے اتاترک ایئر پورٹ اور بغداد میں یا پورے عراق میں یا دنیا کے دیگر مقامات پرجو خودکش حملے یا بم دھماکے کئے تھے وہ اسلام مخالف تھے۔داعش کے خودکش حملہ آور ہمیشہ جہنم میں رہیں گے۔ لہذا ایک سچا مسلمان جس کا کلام الہی پر کوئی شک نہیں ہے اور جو حدیث کو سند مانتا ہو وہ کبھی بھی خود کش حملوں کو جائز قرار نہیں دے سکتا ہے۔ ایک مسلمان جس نے اللہ اور رسول ﷺ کی محبت کا مزہ چکھ لیا ہو وہ خود کشی کو فعل حرام ہی سمجھے گا۔ ایک سچا مسلمان جو زندگی جیسی نعمت کے لئے اللہ کا شکر گزار ہو وہ ایک ہی جھٹکے خود کو اڑا کر تباہ نہیں کر سکتا ہے۔ وہ کبھی بھی کسی دوسرے مسلمان کو خودکش حملوں کے لئے برین واشنگ نہیں کرسکتا ہے۔ اگر وہ یہ حرام فعل کرتا ہے تو وہ جہنم کا مستحق ہوگا اور آخرت میں اللہ رب العزت اور اس کے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قربت کی طرف جانے والے ہر راستے سے محروم ہوگا۔
مذکورہ بالا دلائل سے خودکش حملے یا ’شہادت آپریشن‘ کو جائزٹھہرانے والے جہادی بیانیے کا رد ہو جاتا ہے۔ موجودہ دور کے جہادی انغماس پر خودکش آپریشن کو قیاس کرکے یہ دعوی کرتے ہیں کہ خودکش حملوں کی مشروعیت کو کلاسیکی علما اور فقہا کی تائید حاصل ہے، کیونکہ کلاسیکی علما انغماس کو جائز قرار دیتے ہیں۔ انغماس کا مطلب ہوتا ہے خطرہ مول لے کر دشمن کے صفوں میں گھس جانا، کچھ اس طرح سے کہ زندہ بچنے کا امکان بہت کم ہو۔ جہادیوں کا قیاس قیاس مع الفارق ہے جو اسلامی فقہ میں باطل ہے۔
ہم دیکھ سکتے ہیں کہ خودکش آپریشن کے تصور اور انغماس کے کلاسیکی تصور کے بیچ کافی فرق پایا جاتا ہے۔ انغماس کے کلاسیکی تصور کے مطابق ، انغماس کرنے والا یعنی خطرہ مول لے کر دشمن کے صفوں میں گھس جانے والا ، جسے اصطلاحا انغماسی کہا جاسکتا ہے ، دشمن کے ہتھیار سے مارا جاتا ہے، جبکہ جہادی خودکش آپریشن میں ، حملہ آور عمدا خود اپنے ہی اسلحہ سے ہلاک ہوتا ہے۔ انغماس تب کیا جاتا ہے جب سچ میں اصلی جنگ چل رہی ہو۔ لیکن جہادیوں کا خودکش آپریشن لازمی طور پر لڑائی کے دوران نہیں ہوتا ہے،کیونکہ جہادی خودکش حملے متنازعہ علاقہ کے باہر کر رہے ہیں جیسے کہ نائن الیون کا حملہ تھا۔ انغماس میں جان کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے لیکن زندہ بچ رہنے کی امید رہتی ہے، جبکہ اس کی ایک بھی مثال نہیں ملتی کہ خودکش حملہ آور حملہ کے بعد بچ گیا ہو۔ اتنے سارے فروق کے ساتھ قیاس کو خودکش جہادی آپریشن کے جواز کے لئے استعمال نہیں کیا جا سکتاہے، یہ قیاس قیاس مع الفارق ہے۔
مذکورہ بالا بحث سے یہ نتیجہ نکالا جا سکتا ہے کہ جہادیوں کا یہ دعویٰ کہ خود کش آپریشن یا نام نہاد شہادت آپریشن کی تائید اسلام کی کلاسیکی تشریح سے ہوتی ہے،مرکزی دھارے کے مسلمانوں میں مقبولیت حاصل کرنے کے لئے گڑھا گیا محض ایک جھوٹا پروپیگنڈا ہے، کیونکہ انہوں سے آغاز سے ہی جہادیت کو مسترد دیا ہے۔ اگر جہادی اپنے خودکش حملوں کا اسلامی جواز پیش نہیں کرسکتے ہیں تواسلامو فوبیا کے شکار لوگوں کو بھی جہادیت کو اسلام کی کلاسیکی تشریحات کے ساتھ نہیں جوڑنا چاہئے۔