Breaking News
Home / Blog / (The Islamic Perspective on Street Protests: Upholding Justice and Public Order)

(The Islamic Perspective on Street Protests: Upholding Justice and Public Order)

سڑک پر احتجاجات پر اسلامی نقطہ نظر: انصاف اور عوامی نظم کی پاسداری

قرآن کی اسلامی تعلیمات انصاف، بولنے کی آزادی اور جبر کے خلاف مزاحمت کے تصورات میں واضح طور پر تشریحات موجود ہے۔ لیکن ان کو ہر وقت عوامی نظم و امن کی حدود میں رکھا جانا چاہیے۔ اسلام ایسے اعمال کو روکتا ہے جو تشدد کو اکسائے اور معاشرہ میں سالمیت کو ختم کر دے، اس میں تشدد کے احتجاج بھی شامل جو روزمرہ زندگی کو درہم برہم کر سکتے ہیں اور ریاست کو کمزور کر سکتے ہیں۔ الراحوریہ یا بولنے کی آزادی کا حق اسلام میں بھی اسی طرح پایا جاتا ہے۔ آزادی مطلق نہیں ہے بلکہ برداشت، معاشرتی ہم اہنگی اور جامع فائدے کو فروغ دیتا ہے۔ بہت سارے مسلم علماء اس بات پر زور دیتے ہیں کہ اسلام میں مواصلات نفرت پھیلانے کے لیے،غیرانسانی، لوگوں کے درمیان تقسیم کرنے خلاف استعمال نہیں کیا جاتا ہے۔ اس کا مقصد یہ ہے کہ اتحاد اور معاشرے میں تفہیم کو فروغ دینا ہے۔ شوریٰ کا نظریہ اور مشورہ کا تصورات بھی آزاد تبلیغ کرنے کی اہمیت پر زور دیتا ہے۔ مسلموں کو با اختیار بناتا ہے کہ وہ اپنے نظریات کو ایسے انداز میں بیاں کریں جو جامع طور پر پوری قوم کے لیے فائدہ مند ہو۔

قرآن میں بتایا گیا ہے کہ اسلام جبر کے خلاف مزاحمت کی مدد کرتا ہے لیکن اپنے حقوق کو پانے کے لیے کچھ محدود دائرے میں رہ کر کے جاری رکھ سکتے ہیں۔ یہی وہ مقام ہے جہاں احتجاج کا مسئلہ سامنے آتا ہے۔ جبکہ اسلامی نظامِ کار احتجاج کو واضح طور پر غیر قانونی نہیں کہتا ہے، بلکہ احتجاج کرنے کے لیے کچھ خاص ہدایات جاری کرتا ہے۔ قرآن مجید نے متعدد مواقع پر “حد سے تجاوز کرنے” کے خلاف تنبیہ کی ہے، جیسا کہ سورۃ البقرہ (2:190) میں فرمایا ہے۔ یہ ایک خاص طور پر اہم سبق ہے جب بے قابو عوامی ریلیاں تشدد، املاک کی تباہی اور معصوم لوگوں کو نقصان پہنچائے۔ بے قابو جذبات احتجاج کے درمیان بہت ہی خطرناک ثابت ہوتی ہے۔ میڈیا کی تصویریں عام طور سے یہ بتاتی ہیں کہ احتجاجات تشدد میں بدل جاتے ہیں، یہ املاک کو نقصان پہنچاتے ہیں اور لوگوں کو زخمی کر دیتے ہیں۔ ان حالاتوں میں انصاف مانگنے کے نام پر احتجاج کرنا قابل قبول نہیں ہے اور اسلامی نظریے کے خلاف ہے۔ جھگڑوں کو حل کرنے کے لیے اسلام خوش اسلوبی اور تعمری طریقے سے حل کرنے کی وکالت کرتا ہے۔

بہرائچ میں حالیہ فرقہ وارانہ تشدد کو دماغ میں رکھتے ہوئے، ہمیں یہ یاد رکھنے کی ضرورت ہے کہ اسلام انصاف کے تصورات کی حمایت کرتا ہے اور ایک آدمی اپنی خیالات کو بیان کرنے کے لیے آزاد ہے لیکن یہ آزادی کا استعمال بہت ہی ذمہ داری کے ساتھ کیا جانا چاہیے۔ اسلام کا نظام کار بالکل واضح ہے: یہ ایسے اعمال کو منع کرتا ہے جو دوسرے کو نقصان پہنچائے، عوامی نظم کو برباد کر دے، یا تشدد کو بھڑکائے۔ ایسے احتجاج جو اچھائی سے زیادہ نقصان پہنچائے، جیسا کہ املاک کی ہلاکت، تشدد کے اعمال، یہ اسلام میں بالکل قابل قبول نہیں ہے۔ اسلامی عقیدہ مسلمانوں کی حوصلہ افزائی کرتا ہے غیر تشدد طریقے سے انصاف حاصل کرنے کے لیے، احتجاج کے حق کے حصول کے لیے ایک معتبر نقطہ نظریہ پیش کرتا ہے۔ اگر اسی طرح نا انصافی جاری رہی تو اس کا سب سے اچھا طریقہ ہے کہ قانونی مدد حاصل کی جائے۔ اسلام کا پیغام، جو قرآن کے اخلاقی اصولوں پر مبنی ہے، انصاف، ہم آہنگی، اور ذمہ دارانہ اظہار کا ہے۔ ہمیں قرآن کی تعلیم کو یاد رکھنا چاہیے، جیسا کہ سورۃ المائدہ کی آیت 32 میں ارشاد ہے۔ “جس نے کسی ایک انسان کو ناحق قتل کیا، اس نے گویا تمام انسانوں کو قتل کیا۔ اور جس نے ایک جان بچائی، اس نے گویا تمام انسانوں کو بچایا۔

-انشا وارثی

فرانکوفون اور جرنلزم اسٹڈیز

جامعہ ملیہ اسلامیہ

*****

Check Also

تصوف اور درگاہیں: ہندوستان کے ہم آہنگ ورثے کی علامت

)Sufism and Dargahs: Symbol of India’s Syncretic Heritage)تصوف اسلام کے اندر ایک صوفیانہ روایت ہے، …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *