Breaking News
Home / Blog / (Beyond UPSC: Empowering Indian Muslims Through Business and Diverse Occupations)

(Beyond UPSC: Empowering Indian Muslims Through Business and Diverse Occupations)

یو پی ایس سی سے آگے: ہندوستانی مسلمانوں کو کاروبار اور متنوع پیشوں کے ذریعے بااختیار بنانا

ہندوستانی مسلم قوم کی ترقی کی کوشش ایک طویل عرصے سے مرکزی توجہ تعلیم اور سرکاری ملازمت پر مرکوز ہے، سول سروس ایگزامینیشن (CSE) بہت سارے طالب علم کا مقصد میں مرکزی مقام کی حیثیت رکھتے ہے، جبکہ یو پی ایس سی ایک عظیم زندگی کا راستہ ہے، لیکن اس کی انتہائی مشکل مقابلہ اکثر اس کی تیاری میں کچھ سالوں کی محنت لگانی پڑتی ہے، جس کی وجہ سے بہت سارے کوشش کرنے والے نوجوان کو ناامیدی اور مایوسی حاصل ہوتی ہے۔ ہندوستانی مسلمان کے لیے یہ ایسا وقت ہے کہ وہ اپنے مقاصد مختلف زاویے میں شروع کریں اور ترقی کے لیے متبادل راستہ تلاش کریں، تجارت اور دوسرے پیشے میں موجودہ مواقع کو گلے سے لگائیں۔

اسلام تجارت پر بہت زور دیا ہے اور اس سے عمدہ اور معتبر کوشش کے طور پر جانا ہے۔ محمد صلی اللہ علیہ وسلم ایک کامیاب ترین تاجر تھے جو ایمانداری اور بھروسے کے لیے جانے جاتے تھے۔ ان کے بہت سارے ساتھی (صحابہ کرام) تاجر تھے۔ تجارت اسلامی دنیا میں معاشی خوشحالی کا اہم ترین ذرائع کے طور پر جانی جاتی تھی۔ قرآن مجید صحیح تجارت کے لیے حوصلہ افزائی کرتا ہے اور دھوکہ دھڑی کے اعمال سے روکتا ہے۔ تجارت کرنا روحانی اور معاشی قدر دونوں اعتبار سے بہت ہی اچھا پیشہ ہے۔ تجارت کے متاثر کرنے والے مثالوں میں سے ایک اسلام میں خدیجہ بنت خویلد ہے، جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی پہلی زوجہ تھی۔ خدیجہ (رضی اللہ عنہا)ایک کامیاب ترین تاجر عورت تھی جنہوں نے سعودی عربیہ میں تجارت کو ایک نئی راہ دکھائی ، جنہیں “ایمان والوں کی ماں” کے طور پر جانی گئی ،انہوں نے اپنی تجارت کو خیراتی مقاصد سے جوڑا اور اپنی دولت کو ضرورت مندوں کی حمایت کے لیے صرف کیا۔ خدیجہ رضی اللہ عنہا کی کہانی مسلم عورتوں کے لیے ایک طاقتور یاد دہانی کے طور پر کام کرتی ہے جو تجارت میں مشغول رہتے تھے اور پوری طرح سے اپنی قوم کی ترقی کے لیے کام کیا کرتے تھے۔ سول سروسز کی طرف رغبت سمجھداری ہے، اس کی عزت اور صلاحیت کو دھیان میں رکھنا ایک معاشرتی تاثر کے لیے ہے، لیکن یہ راستہ بہت ہی مقابلہ جاتی ہے جس میں بہت کم ہی امیدوار ہر سال کامیاب ہوتے ہیں، بہت سارے طالب علم اس کی تیاری میں بہت سالوں کی کوشش کرتے ہیں اور دوسرے میدانوں میں اچھے مواقع کھو دیتے ہیں، اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ معتبر وقت اور قوت کھو بیٹھتے ہیں۔ مسلمان، ہندوستان میں خاص کر کے نوجوان متبادل راستے کو ترقی کے لیے اپنائیں،تجارت شروع کرنے اورچلانے سے بھی وہ مالی آزادی حاصل کر سکتے ہیں، نوکریاں پیدا کر سکتے ہیں اور قوم کی ترقی میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ چھوٹی تجارت سے لے کر کے ٹک اسٹار ٹپ، اور تجارت کی کے مواقع بہت وسیع ہے۔ حکومتی اسکیم جیسا کہ “اسٹنڈ اپ انڈیا” اور “مدرا لون” سے بھی حمایت حاصل کی جا سکتی ہے پیسہ کے لیے اور مدد کے لیے۔ ٹیکنالوجی، دوائی، قانون، تعلیم اور دوسرے فن میں اپنے راستے بنا سکتے ہیں، یہ بہت عمدہ راستہ ہے جس سے وہ سوسائٹی کی ترقی دے سکتے ہیں۔ اس قوم کو پیشہ ورانہ تربیت، ہنر کی ترقی پر زور دینا چاہیے تاکہ ان میدانوں میں اپنی مضبوط موجودگی کو یقینی بنا سکے۔ فلم، میڈیا، ڈیجیٹل مواد کی تیاری بھی ایک ایسے ذرائع ہیں جو خود کو ظاہر کرنے اور معاشی ترقی کرنے میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ مسلم نوجوان کو چاہیے کہ وہ ان بڑھتی ہوئی کمپنیز میں شرکت بڑھ چڑھ کر کریں جبکہ وہ اس کے ذریعے دقیانوسی تصورات کے خلاف لڑ سکتے ہیں اور اپنے آپ کی موجودگی کو ترقی دے سکتے ہیں۔ ہندوستان کی معاشی زراعت اور چھوٹے پیدا کرنے والے کمپنی پر مرکوز ہے۔ ان شعبوں میں شامل ہو کر کے ایک دائمی روزی روٹی کا انتظام کر سکتے ہیں اور کھانے کی حفاظت اور مسلسل ترقی کی راہ ہموار کر سکتے ہیں۔ مشترکہ و جامع تجارت ان ذرائع کو اکٹھا کر سکتے ہیں، ہنر کو ترقی دے سکتے ہیں اور پوری قوم کے لیے بھلائی کا ذریعہ بن سکتے ہیں۔ کامیاب ترین مثالیں معاشرے کے چلنے والے بینک اور مشترکہ زراعت کے ماڈل شامل ہیں۔

خدیجہ رضی اللہ عنھا کی کہانی ہندوستان میں مسلم عورتوں کے لیے ایک قابل قدر اسباق فراہم کرتی ہے، معاشرتی و تہذیبی رکاوٹوں کے باوجود، مسلم عورتیں صلاحیت رکھتی ہیں تجارت، تعلیم اور دوسرے میدانوں میں فوقیت حاصل کرنے کی۔ عورتوں کو کاروباری صلاحیت فراہم کرے تربیتی پروگرام کے ذریعے، مالی مدد، پشاورانہ نظام فراہم کر کے جو قوم کے اندر ایک خاص طرح کی ترقی کے لیے کام کر سکتے ہیں۔ مزید براں، عورتوں کی حوصلہ افزائی کرنے کی ضرورت ہے کہ وہ سائنس، ٹیکنالوجی، فن، موثرتی کاموں میں اپنے کیریئیر تلاش کریں۔ عظیم ائیڈیل جیسا کہ فاطمہ بی بی جو ہندوستان کی پہلی عورت سپریم کورٹ کی جج بنی، دوسری طرف ثانیہ مرزا جو عالمی کھیل کی دنیا میں عظیم شخصیت کے حامل ہے، جو یہ ظاہر کرتی ہیں کہ مسلم عورتیں اپنے عزم اور حمایت کے ذریعے فوقیت حاصل کر سکتے ہیں۔ معاشرے کے رہنماء، مذہبی علماء اور اداروں کو بھی ان تبدیلی کو آگے بڑھانے کے لیے اہم کردار ادا کرنا چاہیے۔ مدارس و مساجد مل کر کے پیسہ ورانہ تربیت اور کیرئیر کونسلنگ اپنے پروگرام میں شامل کریں۔ این جی اوز اور شہری معاشرتی تنظیم بہتر جانکاری متبادل کریئر کے راستے کے بارے میں بتانے کی طرف توجہ مرکوز کرے اور انہیں ہنر کی ترقی کے لیے وسائل فراہم کریں۔ اس سے اگے بڑھ کر، مالی تعلیم کو فروغ دے کر، چھوٹی مال کی رسائی دے کر، یہ ان لوگوں کو قابل بنا دیں گے کہ وہ تجارت شروع کر سکیں اورمعاشی مضبوطی حاصل کر سکیں۔ معاشرتی نظام پرامید تاجروں کو خرچ کرنے والے اور تربیت دینے والوں کے ساتھ جوڑتے ہیں، یہ بھی اہم ترقی لانے میں اپنا کردار ادا کر سکتے ہے۔

ہندوستانی مسلمانوں کی ترقی کا راستہ ایک مقصد کے دائرے میں محدود نہیں ہے بلکہ یہ متنوع مواقع کو گلے لگانے میں ہے جو تجارت، کاروبار کی صلاحیت اور دوسرے پیشے میں موجود ہیں۔ اسلامی اقدار، خدیجہ رضی اللہ عنہا جیسی تاریخی مثال ، موجودہ ترقی کی کہانی سے تاثر حاصل کرتے ہوئے، معاشرہ ایک بہترین مستقبل بنا سکتے ہے۔ اپنے کیریئیر کے انتخاب کو صرف مختلف طریقے میں نہ بانٹیں جو انسان کو مالی آزادی کے لیے طاقتور بناتے ہیں بلکہ اپنی قوم کے جامع ترقی کے لیے اپنا کردار ادا کریں۔ یہ وقت ہے قواعد کو دوبارہ سوچنے کے لیے اور ہنر کی ترقی میں خرچ کرنے کے لیے اور ترقی کے مختلف راستے کے دروازے کھولنے کے لیے۔

– ریشم فاطمہ

انٹرنیشنل ریلیشنس میں ماسٹر

جواہر لال نہرو یونیورسٹی

Check Also

تصوف اور درگاہیں: ہندوستان کے ہم آہنگ ورثے کی علامت

)Sufism and Dargahs: Symbol of India’s Syncretic Heritage)تصوف اسلام کے اندر ایک صوفیانہ روایت ہے، …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *