Breaking News
Home / Blog / (Countering Radicalization in India: A Collaborative Path Forward)

(Countering Radicalization in India: A Collaborative Path Forward)

ہندوستان میں انتہا پسندی کا مقابلہ: ایک باہمی تعاون پر مبنی راہِ حل

انتہا پسندی اور شدت پسندی کے نظریات کے عروج پاتے ہوئے مشکلات ہندوستان میں معاشرتی ہم آہنگی اور قومی حفاظت کے لیے بہت بڑا خطرہ پیش کرتا ہے۔ جبکہ انتہا پسندی کے جڑیں مختلف ہیں، یہ مذہبی، معاشرتی، سیاسی اور معاشی شکایت پر مشتمل ہے، ان کے نتائج یکساں طور پہ بربادی ہے۔ یہ مضمون ایک تحقیقی سوال کو حل کرنے کے تلاش کرتا ہے، کہ ہندوستان متاثر طریقے سے کیسے انتہا پسندی کے خلاف لڑیں، جو جمہوری اقدار اور تنوع تہذیب کی حفاظت کرتا ہے۔انتہا پسندی کے راستوں کو تلاش کرتے ہوئے جیسا کہ انتہا پسندی گروہ کے طریقہ کار ہے اور ان کے مختلف مشترکہ رول ہے۔یہ مضمون اس خطرے سے لڑنے کے لیے ایک جامع نظام کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ان کے موجودہ شکایت کو حل کرنے کے لیے طریقہ کارہے، شمولیتی بیانیے کو ترقی دے کر، تعلیم اور شمولیتی کو ترقی دے کر جو ہندوستان کے سیکولر اور جمہوری اخلاقیات کو برقرار رکھتے ہیں۔

ہندوستان میں اکثر انتہا پسندی ظاہر ہوتی ہیں معاشرتی و معاشی اختلافات، پہچان کے بحران اور منقسم بیانیوں کی وجہ سے۔ پسماندہ اقوام غربت سے،امتیازی سلوک اور محدودمواقع سے لڑ رہے ہیں، خاص کر کے کمزور لوگ انتہا پسندی کے ایجنڈے میں مرغوب ہو جاتے ہیں۔ فرقہ ورانہ کشیدگی، ذات پات کے بنا پر امتیازی سلوک اور مقامی عدم مساوات ان کمزوریوں کو مزید اضافہ کر دیتے ہیں۔کچھ نوجوانوں کو معاشی طور پر کمزور بنا دیتے ہیں، جو شدت پسندی نظریات کے بہت جلد ہی شکار ہو جاتے ہیں، یہ لوگ انہیں مکاری سے طاقتور بنانے اور انصاف دینے کا وعدہ کرتے ہیں۔ مزید براں، یہ انتہا پسندی جماعتیں اکثر مذہبی تعلیمات کو غلط طریقے سے تبلیغ کرتے ہیں اپنے ایجنڈے کو پورا کرنے کے لیے۔اسلام، ہندو اور دوسرے اصول کے مطابق عقائد کی غلط تشریحات کا استعمال کیا جاتا ہے تشدد بھڑکانے کے لیے اور خارجیت کی نظریات کو ثابت کرنے کے لیے۔یہ غلط استعمال بین المذاہب میں ہم آہنگی کو کم کرتا ہے اور پرامن، مشترکہ وجود کے بنیادی اقدار کو ختم کرتا ہے جوان مذاہب میں موجود ہے۔ مزید براں، ڈیجیٹل میڈیاانتہا پسندی کے نظریات کی رسائی کو اور بڑھا دیتا ہے۔ سوشل میڈیا پلیٹ فارم اور ان کی صلاحیت لا متناہی ہے جو ان کے پروپیگنڈا پھیلانے کے لیے ہتھیار کا کام کرتے ہیں۔ان کے ماننے والے کو شامل کرتے ہیں اور پھر ان لوگوں کو شدت پسند بنا دیتے ہیں۔

انتہا پسندی سے لڑنے کے لیے متاثر طریقہ یہ ہے کہ بہت سارے نقطہ نظر کو مختلف مشترکہ لوگوں کے ساتھ شامل کرنا ضروری ہے، مذہبی و معاشرتی تنظیم بھی عقیدے کی شمولیتی تشریح کو فروغ دیکھ کر اچھا کردار ادا کر سکتے ہیں۔ محبت، انصاف اور مشترکہ وجود پر زور دے کر یہ تنظیمیں انتہا پسندی بیانیے کے خلاف لڑنے کے لیے قابل ستائش کردار ادا کر سکتے ہیں، مثال کے طور پر، جمعیت علماء-ہند اور اکھل بھارتی سنت سمیتی نے بحث شروع کی ہیں قومی تفریق کو مٹانے اورانصاف کو ترقی دینے کے لیے، علماء اور پنڈتوں ان کو شیشوں کو مزید بڑھا سکتے ہیں ورکشاف اور جانکاری کے پروگرام انعقاد کر کے، تاکہ لوگوں کو تعلیم دی جائے ان کے عقیدے کے صحیح اصول کے بارے میں۔ معاشرتی و معاشی شکایت کو حل کرنا بھی ضروری ہے، تاکہ پسماندگی کی سوچ کو کم کیا جائے جو انتہا پسندی کی سوچ کو ہوا دیتا ہے۔ شمولیتی پروگرام بھی محروم اقوام کو طاقتور بنا سکتے ہیں جیسے نوکری کے مواقع پیدا کر کے اور تعلیم کی رسائی تک فراہم کر کے۔ یہ کوششیں دائمی ہونا ضروری ہے اور دور دراز کے علاقے کو خاص کر کے اس پہ دھیان دینا ضروری ہے تاکہ مفید نتائج کی یقینی بنایا جا سکے۔یہ اقوام خود ایک عمدہ کردار ادا کر سکتے ہیں انتہا پسندی کے شروعاتی پہچان کو حل کر کے اور پہچان کر کے۔ بحثیں کو ترقی دینا شروعاتی اقدام ہیں،ہم آہنگی کی تفہیم مشکلوں کو حل کرنے کا طریقہ بھی انتہا پسندی کے اثر کو کم کرنے میں ایک طاقتور ہتھیار بن سکتے ہیں۔ ڈیجیٹل پلیٹ فارم بھی ایک طاقتور ہتھیار ہے انتہا پسندی کے پروپیگنڈے کے خلاف لڑنے کے لیے۔ حکومت اور شہری معاشرتی تنظیموں کو ایک ساتھ کام کرنا چاہیے آن لائن مواد بناکر کے جو شدت پسندی نظریات کے خلاف چیلنج کر سکے اور بہت ہی جامع متبادل راہ کو فروغ دے سکے۔ India AgainstTerror# جیسی مہمات اپنا کر کے انتہا پسندی کے خلاف لوگوں کی سوچ و فہم کو سوشل میڈیا پلیٹ فارم پرظاہر کر سکتے ہیں۔ تعلیم بھی ایک عمدہ طریقہ کار ہے انتہا پسندی کو روکنے کے لیے۔اسکولوں، یونیورسٹیوں کو بھی تنقیدی تفہیم، میڈیا کی تعلیم اور تکثیری اور جمہوری اقدار کے بارے میں زور دینا چاہیے۔ ان اصلاحات کے تعارف کر کے، جو اخلاقی تعلیم،ہم عصری معاملات پر بحثیں شامل ہے، معاشرتی خدمت کرنے والے پروگرام، ادارے بھی شمولیتی تفہیم اور طلباء کے اندر ذمہ داری پیدا کر سکتے ہیں۔

مذہبی رہنماءاپنے عقیدے کی صحیح تعلیم کو فروغ دینے اور دوبارہ دعوی کرنے میں ایک عظیم اثر رکھتے ہیں، جو سالمیت اور انسانیت پر زور دیتے ہیں۔ انتہا پسندی جماعت کے غلط تشریح کی وکالت کو واضح طور پر چیلنج کر کے، وہ صحیح اور معقول متبادل فراہم کر سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر۔ آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ جنہوں نے اسلامی اصول کے صحیح تعلیم پر روشنی ڈالنے کے لیے جانکاری کے مہم شروع کیا ہے۔ مذہبی تنظیم مقامی انتظامیہ کے ساتھ کام کر سکتے ہیں انتہا پسندی کی شروعاتی پہچان کو ظاہر کرنے کے لیے اور وہ مشورہ اور حمایت دے کر مداخلت کرسکتے ہیں۔انتہا پسندی کے خلاف پروگرام ریاستوں میں قائم کر کے جیسا کہ کیرالہ اور مہاراشٹر نے اچھی ترقی حاصل کی ہے لوگوں کو جانکاری فراہم کر کے، جو شدت پسندی نظریات سے متاثر ہوئے تھے، انہیں ایسے راستہ فراہم کیے جو معاشرے میں ایک مقبول کردار ادا کرتے ہیں۔ بین المذاہب بحثیں بھی غلط تفہیم کو حل کرنے کے لیے اہم کردار ادا کرتے ہیں، مختلف اقوام کے درمیان بھروسہ پیدا کرتے ہیں۔ لگاتار بین المذاہب رہنماؤں کے بیچ بات چیت کرنا، جن کا انتظام شہری معاشرتی تنظیم کرتے ہیں، یہ ہم آہنگی کی عزت اور مشترکہ مقاصد کو ترقی دے سکتے ہیں”سدبھاونا مشن” جس کی شروعات بہت سارے این جی اوز نے کیا ہے، یہ آئیڈیل خدمت دے رہے ہیں بین المذاہب اتحاد کو ترقی دینے میں۔ مزید براں، لوگوں کو انتظامی اور فیصلہ لینے کے عمل میں شرکت کر کے جمہوریت کی طاقت کو بڑھا سکتے ہیں اور حقوق سے محرومی کی تفہیم کو گھٹا سکتے ہیں۔ فلیٹ فارم جیسا کہ پنچایتی راج ادارے بنیادیں سطح کے شمولیتی مواقع فراہم کرتے ہیں اور معاشرے کے تمام لوگوں کے فعال شرکت پر حوصلہ آفزائی کرتے ہیں، جو ایک ساتھ مل کر کے فرقہ ورانہ اور معاشرتی معاملات کو حل کر سکتے ہیں۔

ہندوستان میں شدت پسندی کے خلاف لڑائی ضروری ہے اور یہ ایک جامع اور اشتراکی نقطہ نظر ہے۔ معاشی و معاشرتی اختلافات کو حل کر کے، شمولیتی بیانیوں کو ترقی دے کر کے، ٹیکنالوجی کا فروغ دے کر کے، بین المذاہب میں ہم آہنگی کو عروج دے کر،ہندوستان ایک متحدہ معاشرہ تیار کر سکتا ہے، جو انتہا پسندی کو خارج کرتا ہے۔ مذہبی تنظیمیں، شہری معاشرہ اور حکومت ایک ساتھ کام کریں جمہوریت کی قومی اقدار کو برقرار رکھنے کے لیے۔اتحاد، تعلیم، شمولیت، با اختیار بنانے کے ذریعہ ہندوستان پرامن، مشترکہ وجود کی پہچان کو مسلسل فروغ دے سکتا ہے ایک تیزی سے منقسم ہوتی ہوئی دنیا میں۔

-محمد سلیم،

پی ایچ ڈی،

جامعہ ملیہ اسلامیہ

Check Also

تصوف اور درگاہیں: ہندوستان کے ہم آہنگ ورثے کی علامت

)Sufism and Dargahs: Symbol of India’s Syncretic Heritage)تصوف اسلام کے اندر ایک صوفیانہ روایت ہے، …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *