بھارت میں اسلاموفوبیا کو روزمرہ کی بات چیت اور وجود کے تناظر میں ایک مغالطہ سمجھا جاتا ہے۔
ہندوستان ایک بے مثال تنوع کی زمین ہے، جو مختلف تہذیبیں، مذاہب اور روایات کے مشترکہ موجودگی کی لمبے عرصے سے گواہی دیتی ہے۔ مشہور جملہ” تنوع میں اتحاد” گہرائی سے اس کی پہچان میں سرایت کی ہوئی ہے۔ اور یہ کروڑوں لوگوں کا گھر ہے جو مختلف پسے منظر سے آتے ہیں۔ حالانکہ حالیہ عرصے میں، مذہبی برداشت اور اسلامو فوبیا (اسلام یا مسلمانوں کے خلاف خوف، نفرت، یا تعصب) کا الزام پر بحث چھیڑی گئی ہے جو ہندوستانی معاشرتی ہم آہنگی کی تاریک تصویر کی نقاشی کرتی ہے۔ میدان کے حقائق پر گہری نظر ڈالتے ہوئے، دوسری ہاتھ میں، محبت، ہم آہنگی، مشترکہ وجود کی
ایک مختلف کہانی سامنے آتی ہے، کچھ کشیدگی اور ناراضگی کے باوج
کوئی مذہب بشمولیت اسلام اور ہندو نفرت کی وکالت نہیں کرتے ہیں، باوجود اس کے تاریخ نے لوگوں اور جماعتوں کو اپنا عقیدہ تقسیم کے بیج بونے کے لیے استعمال کرتے ہوئے دیکھا ہے۔ جبکہ فرقہ ورانہ کشیدگی کبھی کبھار ہندوستان میں واقع ہوتے ہیں، ان دور دراز کے واقعات پورے ہندوستان کو بیاں نہیں کرتے ہیں۔ ہندوـ مسلم اتحاد کی بہت ساری کہانیاں ظاہر کرتی ہیں کہ انسانیت مذہبی حدود سے کہیں اونچا ہے۔ بنارس سے دل کو چھونے والی کہانیاں کو مد نظر رکھتے ہوئے جہاں پر مسلم قوم کی ایک جماعت نے ایک نوجوان ہندو لڑکی کے آخری رسم و رواج کا انتظام کیا جو ہندو جنازے کے رسم و رواج کے تمام چیزوں کو دھیان میں رکھتے ہوئے پورا کیے گئے۔ یا کانپور میں مسلمانوں کی کوشش کو مد نظر رکھتے ہوئے جنہوں نے شبراتری کے عقیدت مندوں کو جو مندر کی زیارت کرنے کے لیے جا رہے تھے انہیں دودھ اور پہل فراہم کیے۔ یہ ہمدردی اور محبت کے اعمال کوئی اجنبی نہیں ہے۔ ایک 42 سالہ مسلم عورت میرٹھ میں ہنومان چالیسا کی ہر روز تلاوت کرتی ہے، انہوں نے یہ عمل کالج کے دنوں میں ہی شروع کیا تھا۔ آسام میں ایک مسلمان خاندان 500 سال پرانی مندر کی نگرانی نسل با نسل کرتے رہے ہیں۔ میرٹھ میں ایک مسجد نے اپنے احاطےکو ہندو مندر کے بھنڈارا کے کھانا بنانے کے لیے دے دیا۔ ہندوستان کے لوگ مسلسل مذہبی رکاوٹوں کو پیچھے چھوڑنے کی کوشش کرتے ہیں چاہے وہ مسلمانوں کی حمایت کنور یاتریوںکو یا ہندو لوگوں کا روزہ رکھنا ہو رمضان کے دنوں میں۔ یہ مثالیں صرف کہانی نہیں ہے۔ یہ ہندوستان کی گہری سرایت کی ہوئی تہذیبی اخلاقیت کو ظاہر کرتی ہے۔ یہ بھی عکاسی کرتی ہے کہ کیسے ہندوستان کے لوگ اپنے مذہب سے قطع نظر تمام عقیدت مندوں کے عبادت کے حقوق کو اہمیت دیتے ہیں، اور وہ توجہ دیتے ہیں کہ تمام مذاہب کے لوگوں کی عزت کرنا ضروری ہے ایک حقیقی ہندوستانی ہونے کے لیے۔ کچھ مشکلات ہیں، یہ حقیقت ہے، ہندوستان دوسرے معاشرے کی طرح شیاطین، کچھ ایسے لوگ اور تنظیموں کو اشتراک کرتے ہیں جو اختلافات سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔ اس ملک یا حالات سے قطع نظر ہو کر، نفرت خود بخود کہیں بھی ظاہر ہو سکتی ہے، جو فرقہ ورانہ تشدد کی وجہ سے بری طرح سے پھیلتے ہیں اور یہ خطرناک یاد دہانی کا کام کرتے ہیں۔ بہرحال، یہ کوسوں دور ہے کہ ان حادثات کے ذریعے یہ نسبت کیا جائے کسی خاص قوم کو مسلسل خارج کرنے کے لیے یا منتشرہ اسلامو فوبیا۔
بہت سے معاملات میں، ہندوستان میں اسلامو فوبیا کی سوچ ایک مغالطی تفہیم ہے جبکہ ہندوستان کے روزمرہ کی بات چیت اور وجود کے سیاق و سباق کو مد نظر رکھتے ہوئے۔ محبت، عزت اور اتحاد کے بہت سارے اعمال مسلسل اس ملک کی ہم آہنگی کو مضبوط کر رہے ہیں۔ کچھ مخالف لوگوں کی کوشش کے باوجود جو آوازیں اٹھاتے ہیں اختلافات کے بیج بونے کے لیے۔ بہرحال، یہ بہت ضروری ہے کہ سختی سے عدم برداشت کے مثالوں کے صحیح سے تجزیہ کیا جائے اور اس کی تنقید کی جائے۔ وہ تہذیب جو ایک دوسرے کی عزت کی قدر کرتے ہیں اور وہ نفرت کو برداشت کرنے کے لیے کسی بھی حالت میں استعمال نہیں کیے جا سکتے۔ ان عظیم اچھائی کو پہچانتے ہوئے جو ہمیں متحد کرتے ہیں اور یہ بھی بہت اہمیت کا حامل ہے کہ ہماری غلطیوں کو قبول کریں اور اسے سدھاریں۔ ہندوستان کی طاقت اپنی تہذیبیں اور مذاہب کی اتحاد میں چھپی ہوئی ہے۔ عزت اور مشترکہ موجودگی کے سب سے بڑی حقیقت میں سے ایک یہ ہے۔ باوجوداس حقیقت کے کہ، کچھ لوگ اپنے مذہب کو اپنے برے مقاصد کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ نظامی نفرت کی کسی بھی شکل کو بشمولیت اسلامو فوبیا ہندوستانی تہذیب کو ظاہر نہیں کرتے ہیں۔ مزید براں، ہندوـ مسلم اتحاد کی کہانیاں ہمیں متاثر کرتی ہیں کہ ایک بہتر، مزید شمولیتی معاشرہ تیار کریں جو اس ملک کے دلوں میں حرکت کرتی ہیں۔
انشا وارثی،
فرانکوفون اور جرنلزم اسٹڈیز،
جامعہ ملیہ اسلامیہ
*****