Breaking News
Home / Blog / (Modernising Madrasas Amidst the Raging Debate of Need for Right Interpretation of Faith)

(Modernising Madrasas Amidst the Raging Debate of Need for Right Interpretation of Faith)

مدارس کی جدید کاری: عقیدے کی درست تشریح کی ضرورت پر جاری بحث کے درمیان

نیو اور لینز پر حالیہ حملہ، امریکہ نے ہمیں مذہبی نصوص کی غلط تشریح کی صلاحیت کے کو دکھایا ہے اور یہ ہمارا یقین کو دوبارہ ثابت کرتا ہے ایک پرانے محاورے کے بارے میں'” قلیل جانکاری خطرہ ہے”۔ یہ ہمیں تنقیدی تفہیم اور منطقی استدلال کی اہمیت کو بھی دکھاتی ہے۔ مدارس تاریخی طور پر قابل قدر کردار ادا کیے ہیں، مسلم معاشرے میں تعلیم فراہم کرنے اور علماء ،مذہبی رہنماء کو پیدا کرنے میں، جو اسلامی تعلیم و جانکاری میں معروف و مشحور ہوتے ہیں۔ بہرحال، جیسے دنیا ترقی کی، انہوں نے معاشرے کی تعلیمی ضروریات کو پورا کیا۔ آج سب سے ضروری یہ ہے کہ مدارس کو جدیدیت میں بدلا جائے تاکہ مسلم نوجوانوں کو ایسے ہتھیار سے لیس کیا جائے جو عجلت سے بدلتی ہوئی دنیا میں ترقی کرنے کے لیے ضرورت ہے۔ جبکہ دینی تعلیم بہت ضروری ہے کسی انسان کے ایمان اور تاریخ کو سمجھنے کے لیے، جدید تعلیم بہت ضروری ہے کہ وہ

مشکل مقابلے کی فضا میں اپنی جگہ بنا سکے۔

بہت سارے روایتی مدارس کے مشکلات میں سے ایک یہ ہے کہ یہ پوری طرح سے رٹنے اور یاد کرنے پر منحصر ہے۔ جبکہ یہ طریقہ بہت ہی بہتر ہے خاص کر کے مذہبی نصوص کو حفاظت کرنے کے لیے جیسے قرآن، لیکن یہ اس مواد کی قلیل تفہیم کی طرف رہنمائی کرتا ہے۔ اگر طلباء کو مواد کے تنقیدی تعلیم نہ دی جائے، تو وہ اسلامی تعلیم کی غلط تشریح میں ناکامی محسوس کریںگے۔ تنقیدی تفہیم کی کمی بہت ہی خطرناک نتائج لاتے ہیں۔ نیو اورلینز کے حملے جیسے حادثات کو دیکھتے ہوئے جہاں پر حملہ آور نے مسلسل قرآن کی غلط تشریح کے مطابق عمل کر رہا تھا۔ یہ افسوسناک واقعات تعلیمی فضا کی ترقی کی اہمیت پر زور دیتا ہے، جو حوصلہ افزائی کرے سوال کرنے، مکالمہ اور ایمان کی باریک تفہیم پر۔ مذہب، جیسا کہ ہم جانتے ہیں یہ تعلیم کے تمام زاویے اور پہلو کے حصول پر حوصلہ افزائی کرتا ہے۔ قرآن لگاتار عکاسی، استدلال اور دنیا کے بارے میں ریسرچ اور تلاش پر زور دیتا ہے۔ جدید مضامین جیسا کہ سائنس، ریاضی، ٹیکنالوجی اور معاشرتی سائنس مدارس کے نصاب میں شامل کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ نقطہ نظر طلبہ کو با اختیار بنائیں گے کہ وہ مختلف کریئر کے راستے اپنائیں جیسا کہ ڈاکٹر، انجینیئر، سائنٹسٹ، تاجر، پالیسی بنانے والے بغیر کسی ہچکچاہٹ کے جو مولوی یا عالم کے روایتی کردار سے ہوتے ہیں۔ اس بات کو سمجھنا کہ اسلام کبھی بھی اپنے ماننے والوں کو صرف مذہبی پیشوں تک محدود نہیں کرتا ہے۔ اس کے متضاد، اسلام تمام طرح کی تعلیم حاصل کرنے پر زور دیتے ہیں جس کا مقصد انسانیت کی خدمت کرنا ہو اور خدا کی عظمت کو برقرار رکھنا ہو۔ جدید تدریسی طریقے کو نافذ کر کے، تنقیدی تفہیمی ہنر کی تعلیم دے کر کے، مدارس ایک عظیم کردار ادا کر سکتے ہیں، انتہا پسندی نظریات کے خلاف لڑنے کے لیے۔ اور طلبہ کو یقین دلا سکتے ہیں کہ وہ ایک متوازن اور باخبر

افراد کے طور پر اپنی زندگی میں ترقی کریں۔

مدارس کو جدیدیت میں بدلنے کے لیے مختلف نقطہ نظر کی شمولیت ضروری ہے، جس میں نصاب کی اصلاحات شامل ہے۔ کچھ نئے مضامین کا تعارف کرنا، جیسے انگلش، ریاضی، سائنس اور کمپیوٹر کی ہنر دینی تعلیم کے ساتھ۔ اساتذہ کی تربیت: مدارس میں اساتذہ کی تربیت جدید تدریسی طریقے کے مطابق دینا ضروری ہے، تاکہ حصول تعلیم کو تفاعلی اور شمولیتی بنایا جا سکے۔ اشتراکات کی ضرورت ہے: جیسا کہ حکومتی وہ ذاتی تنظیم کے ساتھ مل کر ذرائع، پیسے اور جدیدیت کے لیے ماہرین کو فراہم کرنے کے لیے۔ تنقیدی تفہیم اور بین المذاہب کی پڑھائی انہیں موجودہ معاملات پر بحث کے لیےحوصلہ افزائی کرتے ہیں اور مختلف نقطہ نظر پر بحث کرنے کے لیے موقع فراہم کرتے ہیں۔ پیشہ ورانہ تربیت جیسے مہارت پر مبنی کورسیز جو طلباء کو بازار کی نوکری اور تجارتی کاموں کے لیے تیار کرتے

ہیں۔

مدارس کو جدیدیت میں بدلنے کے لیے مذہبی کردار کو خارج کرنا نہیں ہے، بلکہ آج کی دنیا کے ساتھ اس کے مطابقت کا اضافہ کرنا ہے۔ جدید تعلیم کی شمولیت کر کے، مدارس مسلم نوجوانوں کی ایسی نسل پیدا کر سکتے ہیں جو صرف اپنے ایمان سے جڑے ہوئے نہیں ہوں گے بلکہ وہ ایسے ہتھیار سے لیس ہوں گے جو اپنی قوم کے لیے پوری طرح سے اپنا کردار ادا کر سکینگے۔ یہ تبدیلی ضروری ہے مسلمانوں کی تعلیم کے بارے میں دقیانوسی تصورات کو ختم کرنے کے لیے اور اعلی تعلیم اور پیشہ ورانہ مواقع کے دروازے کھولنے کے لیے۔ یہ قدم مسلم نوجوانوں کو آج کی عالمی دنیا میں مساوی طور پر مقابلہ کرنے کے لیے معتبر ہے۔ جدیدیت کو گلے لگا کر مدارس اپنے دونوں مقاصد کو پورا کر سکتے ہیں، جیسا کہ روحانی ترقی حاصل کر کے اور نوجوانوں کو تیار کیا جائے جدید دنیا کے چاہت کے مطابق۔ یہ توازن معاشرے کو قوی بنا دے گا اور اسلام کے دائمی پیغام حصول تعلیم، ترقی اور انسانیت کے خدمت کو دوبارہ

ثابت کر دے گا۔

– ریشم فاطمہ

انٹرنیشنل ریلیشنس میں ماسٹر،

جواہر لال نہرو یونیورسٹی

*****

Check Also

تصوف اور درگاہیں: ہندوستان کے ہم آہنگ ورثے کی علامت

)Sufism and Dargahs: Symbol of India’s Syncretic Heritage)تصوف اسلام کے اندر ایک صوفیانہ روایت ہے، …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *