Breaking News
Home / Blog / (Secular vs. Religious State: The Indian Perspective)

(Secular vs. Religious State: The Indian Perspective)

جمہوری بمقابلہ مذہبی ریاست: ہندوستان کا نقطہ نظر

ہندوستان ہمیشہ سے دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت مانی جاتی ہے جو مذہب اور ریاست کے درمیان مختلف اور پیچیدہ تعلق کا مظاہرہ کرتا ہے۔ بہت سے مغربی ملکوں کے برعکس جو جمہوریت کو اس کی مکمل تعارف کے ساتھ قبول کرتے ہیں، ہندوستان کی نقطہ نظر جمہوریت کے بارے میں مختلف ہے جو اعلی تہذیب اور متنوع مذہبوں کا عکاسی کرتا ہے، جب کہ ہندوستان میں متنوع مذھبوں کا شاندار نظارہ ہے۔ اس کا قانون واضح طور پر جموری ریاست کی وکالت کرتا ہے، حکومت اور مذہب کی واضح دوری کا اشارہ کرتا ہے۔ اس مضمون کا مقصد ہندوستان کا مختلف نقطہ نظر جمہوریت کے بارے ظاہر کرنا ہے، مذہب اور ریاست کا رابطہ ان کے متعلقہ معاشرہ کے پیچیدگیوں کا احاطہ اور جائزہ لیتے ہوئے۔

ہندوستان کی جمہوریت اسی کے پس منظر میں چھپی ہوئی ہے، جہاں مذہبی تکثیریت وطن کے طویل اور واضح خصوصیت میں ہے۔ یہ ملک مختلف مذہبی معاشرے کا گھر ہے جہاں پر ہندو مسلم، عیسائی، سکھ ،بدھ، جین اور بہت سارے لوگ رہتے ہیں۔ اس تکثریت کی ضرورت جمہوریت کی مختلف انواع کو بیان کرنے کے لیے ہوئی، اس میں سے ایک یہ ہے کہ ریاست اور مذہب کے درمیان پوری دوری پر زور نہیں دیا جاتا بلکہ مقصد یہ ہوتا ہے کہ تمام مذہبوں کے ساتھ مساوی عزت اور سلوک کیا جائے۔ ریاستہائے متحدہ کے برعکس، جو غیر نظام کے اصول کے طابع ہیں۔ ہندوستان ریاست اور مذہب کی دوری کی دیوار کو نہیں رکھتا ہے۔ اس کے باوجود، ریاست انصاف اور مساوی سلوک کو تمام مذہبوں کے ساتھ برقرار رکھتا ہے۔ جمہوریت کی اس ماڈل کی اکثر تعریف کی جاتی ہے جو تمام مذہبی معاشرے کو لوگوں کو شامل کرنے کی اجازت دیتا ہے، اور رابطہ کی سوچ کو تمام لوگوں کے درمیان میں عروج کرتا ہے۔ جبکہ ہندوستانی قانون مذہبی ازادی کی ضمانت دیتا ہے، مذہبی بنیاد پر امتیازی سلوک کو روکتا ہے ، یہ ریاست کو بھی خاص سطح پر اجازت دیتا ہے مذہبی معاملات میں دخل اندازی کا۔ یہ واضح طور پر بہت سارے سقوں میں شامل ہیں کہ ریاست کو اجازت دی جاتی ہے کہ وہ درست کرے اور کچھ مذہبی رسم و رواج پر پابندی عائد کریں لوگوں کی بھلائی کو دیکھتے ہوئے اخلاقی اور صحت کے طور پر۔ جیسا کہ ارٹیکل 25 میں قانون اقرار کرنے کی ازادی، عبادت اور مذہب کی تبلیغ کرنے کی ازادی کی ضمانت دیتا ہے، بلکہ یہ بھی ریاست کو اجازت دیتا ہے کہ وہ خاص ممانعت نافذ کریں ان حقوق پ۔ر۔ مزید براں، ہندوستانی ریاست ایک اہم رول ادا کرتا ہے مذہبی اداروں کی انتظامیہ میں۔ قانون مذہبی اوقاف، مندروں، مزاروں کی حفاظت ریاست کی نگرانی میں دینے کےلیے شق شامل کیے گئے ہیں۔ مثال کے طور پر،کچھ خاص ریاست میں ہندو مندروں کا انتظام کرنے کے لیے جیسا کہ کرالہ، تامل ناڈو وہاں پر قانون ہدایت دیتا ہے اور ریاست افسران کو متعین کرتے ہیں ان دینی اداروں کو چلانے کے لیے۔ یہ نقطہ نظر ہندوستان کی کوشش کو ظاہر کرتی ہے مذہبی ازادی اور معاشرہ کی اصطلاحات اور لوگوں کی بھلائی کے درمیان ایک متوازن پیدا کرنے کی ۔

مذہبی اقلیتوں کے ذریعے جو حقوق کے فائدے لیے جاتے ہیں جمہوری ہندوستان میں کا موزنہ کرتے ہوئے پڑوسی مذہبی بنیادی ریاست کے ساتھ، ایک واضح فرق ظاہر ہوتا ہے۔ ہندوستان، اس کے مشکلات کے باوجود، مذہبی ازادی، مساوی سلوک کا قانون کے اندر ضمانت دیتاہے۔ مذہبی اقلیتوں ہندوستان میں جیسا کہ مسلم، عیسائی، سکھ اور دوسرے لوگ انہیں اپنی تعلیمی اداروں کو انتظام کرنے اور بنانے کی ازادی، مذہبی عبادت گاہوں کی انتظامیہ اور مذہبی رسم و رواج کو پورا کرنے کی پوری ازادی ہے، یہاں تک کہ کچھ ریاست کے ہدایت کے ساتھ ۔ان کے برعکس، پڑوسی ملکوں میں جیسا کہ پاکستان اور بنگلہ دیش جہاں پر مسلمان سب سے زیادہ ہیں اس ریاست کا مذہب اسلام ہے اور زیادہ تر اقلیتوں کی مذہبی عبادت پر ممانعت نافذکیے جاتے ہیں۔ پاکستان میں مثال کے طور، پر مذہبی اقلیتوں جیسا کہ ہندو، عیسائی اور احمدی قانونی اور معاشرتی امتیازی سلوک کا مقابلہ کر رہے ہیں۔ توہین رسالت کا قانون پاکستان میں بہت بد نام ہے مذہبی اقلتوں کو ہدف بنانے میں، سخت سزائیں دینے میں یہاں تک کہ موت کی، ان لوگوں کو جو اسلام کے عقائد کی توہین میں ملزم بنائے گئے۔خاص کر احمدی لوگ جسے قانون نے غیر مسلم قرار دیا اور انہیں روک دیا کہ وہ اپنے اپ کو مسلمان کہیں اور اپنے عقائد کا کھلے طور پر عبادت کریں۔ اسی طرح بنگلہ دیش میں جہاں قانون جمہوریت کا اعلان کرتا ہے۔ بعد میں اسلام ریاست کا مذہب بنا دیا گیا۔ حالانکہ مذہبی اقلیتوں جیسے ہندو، عیسائی کو قانونی حفاظت حاصل ہے، وہ اکثر معاشرتی امتیازی سلوک اور تشدد کا سامنا کرتے ہیں۔ ویسٹڈ پراپرٹی ایکٹ، مثال کے طور پر، تاریخی طور پر ہندوؤں کی ملکیتی املاک کو ضبط کرنے کے لیے استعمال ہوتا رہا ہے، جس سے معاشرہ کی معاشی پسماندگی میں مدد ملتی ہے۔ ہندوستان کا ماڈل، حالانکہ کچھ غلطیاں ہیں لیکن یہ یقینی بناتے ہیں کہ تمام مذہبی معاشرے اپنے عقائد کی عبادت کرنے کے لیے پوری طرح سے ازاد ہیں ریاست کے دخل اندازی اور طرفداری کے بغیر۔ اس کے برعکس، پڑوسی ملکوں جو مشکلات اور پیچیدگیوں کو پیدا کرتے ہیں جمہوری ریاست اس جگہ میں برقرار رکھنے کے لیے جہاں پر مذہب اکثر مرکزی کردار ادا کرتا ہے وطن کی پہچان بنانے کے لیے۔

ہندوستان کی عدالت نے پیچیدہ تعلق مذہب اور ریاست کے درمیان جائزہ لینے کے لیے ایک اہم رول ادا کر چکا۔ تاریخی ایس آر بومائی بمقابلہ یونین آف انڈیا کیس (1994) میں، سپریم کورٹ نے ہندوستانی ریاست کی جمہوری نوعیت کی توثیق کی، یہ فیصلہ دیا کہ “سیکولرازم (جمہوریت) آئین کے بنیادی ڈھانچے کا حصہ ہے” اور پارلیمانی ترامیم سے اسے تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔ تاہم، عدلیہ نے بھی ہندوستانی جمہوریت کی منفرد نوعیت کو تسلیم کیا ہے، جو مذہب کو عوامی دائرے سے مکمل طور پر خارج نہیں کرتا ہے۔ مثال کے طور پر، مذہبی طریقوں کے ضابطے سے متعلق معاملات میں، عدالت نے مذہب کے “ضروری” اور “غیر ضروری” پہلوؤں کے درمیان فرق کیا ہے، جس میں پہلے کو آئینی طور پر تحفظ حاصل ہے اور بعد میں ریاستی ضابطے سے متعلق ہے۔

جمہوریت کا کے بارے میں ہندوستان کا نقطہ نظر ایک لچکدار متوازن ایکٹ ہے جو مذہبی تنوع کی عزت کرتا ہے اورانصاف کو برقرار رکھتا ہے، غیر مذہبی ریاست ۔ہندوستان مسلسل ترقی کر رہا ہے جمہوریت کے طور پر، مکالمہ صحیح تعلق مذہب اور ریاست کے درمیان مسلسل برقرار رہے۔ جمہوریت کا ہندوستانی ماڈل اگرچہ یہ صحیح نہیں ہےپھر بھی واضح دلیل ہے اس ملک کی عزم ہیکہ بہت سے مختلف مذاہب کو جمہوریت ڈھانچہ کے اندر منظم رکھے۔ہندوستان کی جمہوریت کا مستقبل منحصر ہے کیسے پیچیدہ حرکات کا جائزہ لیں اور یہ یقینی بنائے کہ تمام مذاہب کو مساوی اور عزت کے طور سے سلوک کیا جائے، اور جمہوریت اور انصاف کے اصولوں کو برقرار رکھتے ہوئے۔

الطاف میر

پی ایچ ڈی اسکالر

جامعہ ملیہ اسلامیہ

Check Also

(Government’s Commitment to Minority Welfare Beyond Politics)

اقلیتی فلاح کے لیے حکومت کا عزم: سیاست سے بالاتر حالیہ برسوں میں، حکومت نے …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *