سپریم کورٹ کا مدارس کی تعلیم پر فیصلہ: قانون کی حکمرانی اور آئینی اقدار کی پاسداری
ایک قابل تعریف فیصلہ سناتے ہوئے، سپریم کورٹ نے حالیہ میں اتر پردیس مدرسہ ایجوکیشن ایکٹ، 2004 کی قانونی وقار کو برقرار رکھا جو قانون کی حکمرانی کو برقرار رکھنے کی لیے اس ملک کے عزم کو مضبوطی سے ظاہر کرتا ہے۔ یہ فیصلہ صرف الہ آباد ہائیکورٹ کے قدیم فیصلے کو مسترد نہیں کرتا ہے جو اس ایکٹ کو خارج کرتا تھا بلکہ ایک مثبت قدم کو ظاہر کرتا ہے عدالت کے کردار کو دکھانے کے لیے کہ مذہبی آزادی کو ریاست کے حق کے ساتھ متوازن کرنا ہے جو تعلیم کو منظم کرتا ہے۔ یہ فیصلہ ایک مثال ہے ہندوستان کےجمہوری نظام کا جو تعلیمی اداروں کو اپنے معیار کے تحت رواں دواں رکھنے کو یقینی بناتا ہے جو عمدہ تعلیم کو فروغ دیتا ہے۔
اس فیصلے کا بنیادی مقصد قانون کی حکمرانی کو برقرار رکھنا ہے، جو مسلم معاشرے کو اور دیگر اقلیت قوموں کو یقین دلاتا ہے کہ ان کے مذہبی حقوق آئین کے تحت محفوظ ہے۔ اسی وقت، تمام لوگوں کو یقین دلاتا ہے کہ تعلیمی معیار جدید، متصل اور مقابلہ جاتی دنیا سے متعلق ضرورت کو پورا کریں۔یہ فیصلہ واضح کرتا ہے کہ ریاستی حکومت جنہیں یہ طاقت دی جاتی ہے کہ مذہبی اور جمہوری تعلیم سے متعلق قوانین پاس کریں جو قوانین کے اصول مطابق ہو،اور طلبہ کو ایک متوازن تعلیم فراہم کرے جو انہیں متعدد کیریئر کے راستے کے لیے تیار کرے۔ یہ فیصلہ الہ آباد ہائی کورٹ کے بعد آتا ہے،اس سال کے شروع میں جو 2004 کے ایکٹ کو غیر قانونی بتاتا ہے اور مدرسہ کے طلباء کو ہدایت دیتا ہے کہ وہ ریگولر اسکول میں داخلہ لے لیں۔ ہائی کورٹ کا قانون ایک لہر کو پیدا کیا، جس پر مختلف قومی رہنما، سیاستداں، مذہبی علماء کارد عمل سامنے آیا،انہوں نے اس فیصلے کی تنقید کی کہ یہ مذہبی حقوق پر ایک حملہ ہے۔ بہرحال، سپریم کورٹ کایہ فیصلہ ان تمام شکوک و شبہات کو خارج کرتا ہے،اور اس بات زور دیتا ہے کہ ریاست کا تعلیمی معیار کو منظم کرنے کا اختیار اپنے دائرہ اختیار میں مدارس اور دیگر مذہبی اداروں کو بھی شامل کرتا ہے۔
یہ فیصلہ مسلم قوم کے لیے ایک عظیم لمحہ کے طور پر دیکھا جانا چاہیے، جو ہندوستان کے عدالتی نظام کی اہمیت کا اظہار کرتا ہے، نہ کہ ان اکسانے والے بیانات پر رد عمل کرنا چاہیے جو اکثر مذہبی اور سیاسی رہنماؤں کی طرف سے آتے ہیں۔ کچھ رہنما اور علماؤں کا الہ آباد ہائی کورٹ کے شروعاتی فیصلے پر جذبات سے متاثرکن رد عمل آئے،احتجاج کی دعوت جوعدالتی ارادہ پر سوالیہ نشان قائم کرتاہے۔ مسلم نوجوانوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ اس چیز کو سمجھیں کہ اس طرح کے بیانیوں پر بھروسہ کرناجو اکثر ایک خاص قسم کے حکمراں اور رہنماؤں کے سیاسی مقاصد کو پورا کرنے کے لیے ہوتا ہے نہ کہ انکی قوم کے حقیقی دلچسپی کو حل کرنا ہوتا ہے۔
حالیہ عرصے میں ہم نے ایسے حالات کا مشاہدہ کیا ہے جہاں پر جذباتی بیانات کچھ مشہور حکمراں کے طرف سے تیار کیے گئے جو لوگوں کے درمیان ناراضگی کو پیدا کیا، اور یہ اکثر تعمیری حل کے مقاصد کو نظر انداز کر دیتا ہے۔ طلباء کی تعلیمی ضرورت کو پورا کرنے یا اپنی قوم کی ترقی کی حمایت کرنے کے بجائے یہ رد عمل کبھی کبھار معاشرتی تفریق کو پیدا کرتا ہے۔ مسلم قوم کو بہت فعال رہنے کی ضرورت ہے، ان بیانیوں کو تنقیدی طور پر جائزہ لیتے ہوئے یہ جاننا ضروری ہے کہ یہ انہیں تعلیم اور تقویت پر ایک معتبر مکالمہ سے دور کر سکتے ہیں۔ ان لوگوں کی اطاعت کے بجائے جو صرف اپنے سیاسی مقاصد کو پورا کرنا چاہتے ہیں، یہ قوم ایک تعمیری مکالمہ میں حصہ لیں کہ کیسے تعلیمی اصلاحات کیا جائے مدرسہ جیسے مذہبی اداروں کے اندر جو طلباء کو پرامیداوربہتر مستقبل فراہم کر سکے۔
سپریم کورٹ کا فیصلہ مدرسہ تعلیم کو منظم کرنے پر زور دیتا ہے نہ کہ یہ اسلامی تعلیم اور مذہبی آزادی پر حملہ کرتا ہے۔ اس کے باوجود، یہ ایسا قدم ہے جو مدارس کو ایک عظیم تعلیمی معیار کے ساتھ متصل کرنا ہے جو طلباء کو علم اور ہنر سے سرفراز کر دے جو جدید دور کے مشکلات کے لیے ضروری ہے۔عمدہ تعلیم جمہوری مضامین اور زندگی کے ہنر کو شامل ہے جو دیگر مواقع کے دروازے کھولنے میں مدد کرتے ہیں، ہر طرح کے طلبہ کو طاقتور بناتے ہیں یہ ان لوگوں کو بھی شامل ہے جو مددسہ میں تعلیم حاصل کیے ہیں۔ یہ اصلاحات یقینی بناتے ہیں کہ مدرسہ کے طلباءمقابلہ جاتی ملازمتوں کا بازار سے پیچھے نہیں رہجائے اورایسی ہنر فراہم کرتے ہیں جو معاشرے میں ترقی دینے کے لیے ضرورت ہے۔ ہندوستانی قانون کی حکمرانی تمام لوگوں کے حقوق کی حفاظت کرتی ہے ان کے مذہب سے قطع نظر، جب کہ یہ تعلیمی معیار کی ضرورت پر بھی زور دیتا ہے جو پوری طرح سے اس ملک کی خدمت کر سکے۔ یہ فیصلہ مسلم قوم کو دعوت دیتا ہے کہ وہ تعلیمی نظم و نسق کاجائزہ لیں کہ یہ اس ملک کی کوشش کا ایک حصہ ہے جو ہر طالب علم کی طاقت کی ترقی کو ہموار کرنے کی لیے ہے نہ کہ یہ مذہبی آزادی پر حملہ ہے۔آئین اور عدالتی معاملات پر بھروسہ کرنے کے ساتھ ساتھ، مسلمان ایک معتبر کردار ادا کر سکتے ہیں ایک ایسے مستقبل کی تشکیل میں جہاں پر مذہبی تعلیم تکمیل کا کام کرتی ہے نہ کہ جدید تعلیمی مقاصد کے ساتھ تنازعات پیدا کرتی ہے۔
سپریم کورٹ کا مدرسہ ایجوکیشن ایکٹ کی تصدیق کرنا مسلمان اور باقی لوگوں کے لیے دعوت ہے کہ وہ اپنے بھروسے کو ہندوستانی جمہوری اداروں پر برقرار رکھے۔ نہ کہ ان بیانیوں سے متاثر ہوں، یہ قوم حکومت اور عدالت کے ساتھ تعمیری شمولیت پر کام کر سکتے ہیں۔ قانون اور مقبول تعلیمی اصلاحات کی حمایت کر کے مسلم قوم یقینی بنا سکتے ہیں کہ ان کے نوجوان دونوں مذہبی اور جدید تعلیم حاصل کریں اور انہیں طاقتور بنائیں، متنوع اور ترقیافتہ ہندوستان میں اپنے خدمات دینے کے لیے۔ اس فیصلہ کو گلے لگاتے ہوئے، مسلم قوم صرف اپنا ارادہ اور عزم ہندوستانی قانون کے ساتھ مضبوط نہ کرے بلکہ ایسے مستقبل کی تعمیر کرے جہاں پر تعلیم تقویت، اتحاد اور ہندوستان کی خوشحالی کاجامع خواب کی راہ کی طرف گامزن کرے۔
ریشم فاطمہ
انٹرنیشنل ریلیشنس،
جواہر لال نہرو یونیورسٹی