Breaking News
Home / Blog / (The Danger of False Narratives How Misinformation Fuels Alienation)

(The Danger of False Narratives How Misinformation Fuels Alienation)

جھوٹے بیانیوں کا خطرہ: غلط معلومات کیسے علیحدگی کو بڑھاتی ہیں

آج کے ڈیجیٹل زمانے میں سوشل میڈیا مواصلات، تعلقات اور معلومات کی اشتراکت لیے ایک طاقتور آلہ کے طور پر ظاہر ہوا ہے۔ لیکن جیسے اس کے فائدے ہیں ویسا ہی یہ اپنے ساتھ موروثی خطرات لے کے چلتا ہے، خاص کر کے جب یہ غلط معلومات کی بات آتی ہے۔ بہت سارے نوجوان خاص کر کے مسلم نوجوان غلط معلومات انہیں علیحدگی اور ناراضگی اور سخت معاملات میں تشدد کے لیے محرکات کی طرح کام کرتی ہے۔ نوجوان خاص طور پر آن لائن موجود بے پناہ معلومات کے سمندر کے سامنے زیادہ غیر محفوظ ہے۔ جو فوری مواصلات اور ڈیجیٹل توامل کے زمانے میں پلے بڑھے ہیں، وہ اکثر WhatsApp،Instagram، اور X (پہلے ٹویٹر) جیسے پلیٹ فارم کے ذریعےخبریں اور رجحانات فوری طور پر حاصل کرتے ہیں۔ یہ پلیٹ فارم تیزی سے ایکو چیمبر (گونج گاہ) بنتے جا رہے ہیں، جہاں الگورتھم(ہدایت نامہ یا نسخہ جو فیصلہ کرتا ہے کہ کون سی ویب سائٹس آپ کی تلاش سے متعلق ہیں اور ان کو کس ترتیب میں دکھانا ہے) ایسے مواد کو ترجیح دیتے ہیں جس کے ساتھ صارفین کے مشغول ہونے کا زیادہ امکان ہوتا ہے، اور اس طرح ایک ایسا سلسلہ جنم لیتا ہے جو مخصوص عقائد اور بیانیوں کو پیدا کرتا ہے۔مسلم نوجوانوں کے لیے خاص کر کے وہ لوگ جو اپنے آپ کو نازک صورتحال میں پاتے ہیں۔ ایسے معاشرہ میں وہ رہتے ہیں جہاں اقلیت قومیں پہلے سے ہی پہچان، تعلقات اور منظم امتیازی،غلط معلومات کے معاملات کا سامنا کر رہے ہیں- چاہے وہ مسخ شدہ خبروں، گمراہ کن سرخیوں، یا مخصوص پروپیگنڈا کے ذریعے ہو – یہ سب خاص طور پر خطرناک ثابت ہو سکتے ہیں۔

غلط معلومات کے بہت ساری شکلیں ہو سکتی ہیں: جیسا کہ ظلم و ستم کی مبالغہ آرائی کہانی، تاریخی نا انصافی کے ویڈیو جو اس کے سیاق وسبق سے قطع نظر ہو، اور ایسی سازشیں کی نظریات جو مذہبی اور اخلاقی گروہ کو آپس میں لڑا سکتے ہیں، اس طرح کے مواد بہت جلدی ہی کمزورنوجوانوں کے درمیان میں جنگل کی آگ کی طرح پھیل جاتے ہیں، اکثر ان کی تحقیقات نہیں کی جاتیں ہیں۔ اور جبکہ مسلم نوجوان پہلے سے ہی پسماندگی کے ساتھ سے لڑ رہے ہوتے ہیں اور یہ غلط بیانیےان کی تصورات کو پورا کرتیں ہیں کہ وہ لوگ حملے کے زد میں ہیں۔ ان کے حالات کی حقیقت اور سوشل میڈیا کے ذریعے سائع کردہ واقعہ کے درمیان فاصلہ وسیع تر ہو جاتی ہے، اور یہ انہیں اپنے معاشرے سے جہاں پر وہ رہتے ہیں علیحدگی کی احساس کو فروغ دیتاہے۔بہت ساری معاملات ایسے ہیں کہ وہ احساس کرتے ہیں کہ وہ کچھ بھی کر لے لیکن انہیں مساوی شہری کا درجہ نہیں حاصل ہوگا۔ یہ علیحدگی دونوں جذباتی اور جسمانی ہو سکتے ہیں جو نوجوانوں کو مرکزی معاشرتی اور شہری زندگی سے بہت دور کر دیتی ہے۔

اگلا قدم اس خطرناک عمل میں یہ ہے کہ یہ علیحدگی سے سفر کرتے ہوئے شدت پسندی تک پہنچ جاتا ہے۔غلط معلومات کے اندر اتنی طاقت ہے کہ اس تصورات کو بگاڑ دیتی ہے جہاں پر نوجوان دیکھتے ہیں کہ تشدد ہی ان کے حقیقی ذرائع ہیں انصاف حاصل کرنے کے لیے اور ایک منظم خطرات سے اپنے اپ کو بچانے کے لیے۔ جب ہر قسم کا میڈیا جو وہ دیکھتے ہیں، حقیقی یا خیالی ظلم و ستم کی طرف اشارہ کرتا ہے، تو تشدد ہی جواب دینے کا واحد طریقہ جس کاوہ محسوس کرتے ہیں۔مسلم نوجوان اپنے آپ کو آن لائن جگہوں میں پاتے ہیں جہاں پر انتہا پسندی کے نظریات بہت ہی عام ہیں۔ شدت پسندی کے گروہ بہت چالاکی سےان غلط معلومات کے ذریعے ان محروم نوجوانوں کو اپنے گروپ میں شامل کرتے ہیں۔اور وہ ان کی کمزوری کا غلط استعمال کرتے ہیں اور انہیں مقصد اور تعلقات کے احساس دلاتے ہے جو لوگ علیحدگی کا احساس کرتے ہیں۔ یہ گروہ ان نوجوان لوگوں سے وعدہ کرتے ہیں کہ تشدد اور قانون کی خلاف ورزی کر کے وہ انصاف، عزت کو حاصل کر سکتے ہیں اور بدلہ لے سکتے ہیں۔ حقیقت میں یہ راستہ بربادی کی طرف لے جاتا ہے دونوں اعتبار سے ان کی ذاتی طور پر اور اس سے بڑھ کر ان کی قوم کو بھی برباد کر دیتا ہے جن سے ان کا تعلق ہے۔

غلط معلومات کے بڑھتے ہوئے خطرات ایک سنجیدہ چیلنج پر روشنی ڈالتا ہے معاشرے کے لیے، خاص کر کے معاشرتی رہنماؤں،اساتذہ اور پالیسیاں بنانے والوں کے لیے۔ان کے لیے ضروری ہے کہ وہ ان غلط بیانیوں کو پھیلنے سے روکنے کے لیے عملی قدم اٹھائیں، میڈیا کی تعلیم اور نوجوانوں کے درمیان تنقیدی سوچ کو فروغ دے کر۔ اسکولوں اور یونیورسٹیوں میڈیا کی تعلیم کو اپنے نصاب میں شامل کریں تاکہ وہ طلبہ کو پڑھا سکے کہ کیسے ذرائع کی تصدیق کی جائے، معلومات کی حقیقی جانچ کی جائے اور ان خبروں کو تنقیدی طور پر سوچیں جو آن لائن حاصل کرتے ہیں۔ یہ نوجوان لوگوں کو با اختیار بنائے گا غلط معلومات کی جانکاری حاصل کرنے میں اور وہ اس کے شکار ہونے سے اپنے اپ کو بچا سکیں گے۔معاشرتی رہنماءاور مذہبی علماء کی بھی بہت بڑی ذمہ داری ہے اس کو پورا کرنے کے لیے۔مسلم نوجوانوں کے ساتھ وہ ضرور شامل ہوں اور ان کے لیے خالی وقت نکالیں مکالمے کے لیے اور کھلے طور پر ان سے باتیں کریں تاکہ وہ اپنی خدشات کو ظاہر کر سکیں، ان سے سوالات پوچھیں اور سچائی پر مبنی رہنمائی حاصل کریں۔ غلط معلومات دور دراز میں ترقی پاتی ہیں، معاشرتی شمولیت کو فروغ دے کر نقصان دہ خیالات کو پھیلنے سے روکا جا سکتا ہے۔ مزیدبراں، حکومت اور سوشل میڈیا کمپنیاں ایک ساتھ کام کریں غلط معلومات کے پھیلنے کو روکنے کے لیے۔ حقائق کی جانچ کرنے والی خدمات، سخت مواد کی نگرانی کی پالیسیوں، اور ایسے قانونی فریم ورک جو پلیٹ فارم کو جوابدہ ٹھہراتے ہیں، غلط معلومات کے اثرات کو کم کرنے کے لیے ضروری اقدامات ہیں۔

غلط معلومات کا خطرہ حقیقی ہے اور یہ ناقابل تسخیر نہیں ہے۔ مسلم نوجوانوں کو تقویت دینا، تعلیم، تعمیری مکالمہ اور تنقیدی تفہیم کے ذریعے جس سے وہ منفی اثرات کا مقابلہ کر سکتے ہیں۔ ہمیں متحد ہو کے کام کرنے کی ضرورت ہے تاکہ نوجوان لوگوں کو شمولیت پر مبنی بیانیے، تفہیم اور تقویت فراہم کر سکیں نہ کہ تقسیم اور ڈر۔ غلط معلومات علیحدگی کا ایندھن بن سکتا ہے لیکن صحیح آلات اور ہدایات یقینی بنا سکتے ہے کہ مسلم نوجوان مثبت تبدیلی اور شمولیت کے راستے پر قائم اور دائم رہیں۔ ایسے مستقبل کی تشکیل دے،جہاں پر نوجوان محسوس کرے جس سے وہ تعلق رکھتے ہیں، جہاں پر ان کی آوازیں سنی جاتی ہیں اور جہاں پر وہ سچائی کو جھوٹ سے الگ کرنے کی طاقت رکھتے ہیں،اور ہم انہیں غلط بیانیے کے خطرات سے محفوظ کر سکتے ہیں۔ایسے معاشرہ کی تشکیل ضروری ہے جو صرف انصاف اور شفاف نہ ہو بلکہ تقسیم اور غلط معلومات کا سامنا کرنے کے لیے ہمیشہ قائم دائم رہے۔

ریشم فاطمہ،

ماسٹر

انٹرنیشنل ریلیشنس

جواہر لال نہرو یونیورسٹی

*****

Check Also

تصوف اور درگاہیں: ہندوستان کے ہم آہنگ ورثے کی علامت

)Sufism and Dargahs: Symbol of India’s Syncretic Heritage)تصوف اسلام کے اندر ایک صوفیانہ روایت ہے، …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *